جناب وزیراعظم : آپکے ضلع میں مظلوموں کو انصاف نہیں ملے گا؟
21 اکتوبر 2008ء میں مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی جانب سے لگائے جا نے والے نعرے تیری منڈی میری منڈی راولپنڈی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول کے آر پار سرینگر مظفرآباد تجارت شروع کر نے کا فیصلہ کیا جس کے بعد آزاد و مقبوضہ کشمیر کے درمیان اکتوبر 2008ء میں باقائدہ طور پر لائن آف کنٹرول کے آر پار چکوٹھی اوڑی کراسنگ پوائنٹ سے اکیس اشیاء کی تجارت شروع کی گئی رواں ماہ انٹرا کشمیر تجارت کو شروع ہوئے نو سال مکمل ہو نے کو ہیں اس دوران یہ تجارت بڑے نشیب وفراز سے گذرتے ہوئے مختلف تنازعات کا شکار رہی بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر جانے والے تین مال بردار ٹرکوں سے منشیات برآمدگی کے الزام کے بعدآج بھی گذشتہ کئی سالوں سے آزاد کشمیر کے تین بے گناہ ڈرائیور مقبوضہ کشمیر میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں لیکن آج تک انکی رہائی کے لیے کوئی خا طر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے گذشتہ ماہ انیس ستمبر کے روز آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر جا نے والے ایک کارپٹ کے ٹرک سے دوران چیکنگ چکوٹھی کراسنگ پوائنٹ پر ٹاٹا حکام نے آزاد کشمیر میں ہی پچاس کلو سے زائد ہیروئن برآمد کی جس کے پیشِ نظر ٹاٹا انتظامیہ نے راولپنڈی سے لائن آف کنٹرول چکوٹھی تک کارپٹ سے لدا ٹرک لانے والے دو ڈرائیورز اور ٹرک کی جانچ پڑتال کروا کر بطور دیہاڑی دار ایجنٹ کاغذات بنوانے والے تین افراد کو ٹریڈ ٹرمینل سے گرفتار کر لیا گیا جبکہ اصل تاجر سجاد زرگر عرف ماجد زرگر موقعہ پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی راولپنڈی اور اسلام آباد میں کہیں روپوش ہے تھانہ چناری پولیس نے گذشتہ ہفتے تین دن مسلسل سجاد زرگر کو گرفتار کرنے کے لیے کارروائیاں کی لیکن وہ اسے گرفتار کرنے میں کا میاب نہیں ہو سکی جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ سرینگر مظفرآباد تجارت کے بارے میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام آئے روز کچھ نہ کچھ نیا سنتے ضرور ہوں گے لیکن انھیں شاہد یہ علم نہ ہو کہ مقبوضہ کشمیر سے آنے والا مال کیسے وصول کیا جا تا ہے اور اسے کیسے مقبوضہ کشمیر بھیجا جاتا ہے پہلے نمبر پر تو کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ یہ تجارت نہیں کر سکتا بلکہ اس تجارت کی اسی شخص کو ایس او پی کے مطابق اجازت ہے جو آزاد کشمیر کا با شندہ ہو یا پھر مہاجرین مقیم پاکستان سے اس کا تعلق ہو آج اسی ایس او پی کے مطابق ٹریول اینڈ ٹریڈ اتھارٹی آذاد کشمیر کے پاس تقریبا ساڑھے تین سو تاجر رجسٹرڈ ہیں جن کا تعلق آزاد کشمیر یا مہا جرین مقیم پاکستان سے ہے اسی طرح مقبوضہ کشمیر کی طرف سے بھی کوئی انڈین شہری اس تجارت کو براہ راست نہیں کر سکتا صرف مقبوضہ کشمیر کا شہری ہی مال بردار ٹرکوں کو اپنے کا غذات پر لائن آف کنٹرول کے آر پار کروا سکتا ہے یوں غیر ریاستی باشندوں پر اس تجارت کو ڈائریکٹلی کرنے پر پابندی کے باعث پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے تاجر لائن آف کنٹرول کے آر پار چند ہزار روپے کے عوض اپنے کمیشن ایجنٹ مقرر کرتے ہیں جن کے کاغذات پر پاکستانی اور بھارتی تاجر اپنا اپنا مال لائن آف کنٹرول سے کراس کرتے ہیں چونکہ کشمیر کے دونوں حصوں میں روز گار کے مواقع بہت کم ہیں اس لیے ان تاجروں کو بیروزگاری کے ہاتھ مجبور ریاستی باشندے اپنی دال روٹی کے چکر میں مجبور زمانہ لاعلم اشخاص دو تین ہزار کی دیہاڑی دار با آسانی مل جاتے ہیں جن کا اصل سمگلر ان کی لاعلمی اور سادگی کا اپنے آپ کو محفوظ پناہ گاہوں میں رکھ کر خوب فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں شائد وہ کامیاب بھی ہوتے ہوں گئے جس کی دلیل یہ کہ اس سے قبل بھارت کی جانب سے منشیات برآمدگی کے الزامات کے بعد آزاد کشمیر کے تین ٹرک ڈرائیوروں کی گرفتاری کے بعد ہو نے والی تحقیقات کے مطابق ان ٹرکوں کو کمیشن ایجنٹوں کے زریعے لائن آف کنٹرول کے پار کیا گیا جبکہ گذشتہ ماہ ستمبر میں آزاد کشمیر کے ہی علاقے چکوٹھی ٹریڈ سینٹر پر پکڑی جا نے والی ہیروئن کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق اس ٹرک کو لائن آف کنٹرول پر بھیجنے والا کشمیری تاجر سجاد زرگر ہی ہے جس نے آزاد کشمیر کے علاقے دھیر کوٹ کے ایک ٹرک پر کارپٹ کے رولوں میں چھپا کر پچاس کلو گرام ہیروئن مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی کو شش کی جسے چکوٹھی ٹریڈ سینٹر پر ٹا ٹا اہلکاروں نے گاڑی کی سکینگ کروانے والے دیہاڑی دار اسرار عزیز کی نشاندہی پر برآمد کر لیا پڑھنے والوں کی آسانی کے لیے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ چکوٹھی ٹریڈ سینٹر پر ہیروئن برآمدگی کے وقت گرفتار ہو نے والے پانچ افراد کا قصور کیا تھا جو ایک ماہ سے تھانہ چناری کی جوڈیشل لاک اپ میں ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں ان پانچ افراد کا قصور یہ ہے کہ وہ چکوٹھی ٹریڈ سینٹر پر اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے رزق حلال کی تلاش میں تھے کہ انھیں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سلاخوں کے اندر ڈال دیا گیا سرینگر مظفرآباد تجارت کر نے والے تاجروں کی اکثریت راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہے اور وہ مقبوضہ کشمیر بھیجے جانے والے اور مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ٹرک کی چیکنگ کے خود ٹریڈ سینٹر پر نہیں جا تے ٹرکوں کو بھیجنے اور انھیں وصول کر نے کے لیے انھوں نے دو سے تین ہزار روپے پر مقامی لوگوں کو ذمہ داری دے رکھی ہے جو ان کے ٹرکوں کی چیکنگ اور کاغذات بنوا کر انھیں مقبوضہ کشمیر بھیجتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ٹرکوں کے مال کو ان لوڈ کروانے کے بعد انھیں مقامی ٹرکوں پر لوڈ کر کے راولپنڈی کے لیے روانہ کرتے ہیں انیس ستمبر کے روز بھی ایسا ہی ہوا جب ٹریول اینڈ ٹریڈ اتھارٹی آزاد کشمیر کے پاس رجسٹرڈ تاجر سجاد زرگر عرف ماجد زرگر نے اسلام آباد کی سبزی منڈی کے قریب واقع شل پٹرول پمپ کے سامنے ایک مزدہ ٹرک سے آذاد کشمیر کے ایک ٹرک پر کارپٹ رول لوڈ کیے مال کی چیکنگ کروانے کے لیے خود لائن آف کنٹرول کے ٹریڈ سینٹر پر جا نے کے بجائے اس نے دیہاڑی کے طور پر کام کرنے والے اسرار عزیز کو فون پر بتایا کہ وہ اس کا کارپٹ سے لوڈ ٹرک سکینگ اور کاغذات بنوا کر مقبوضہ کشمیر بھیج دے اسرار عزیز جس کی فرم گذشتہ کئی ماہ سے کام نہ کر نے کی وجہ سے بلاک تھی اس نے موقعہ پر موجود دیگر دو دیہاڑی داروں محمد متولی اور چوہدری قیوم کو گاڑی کی انٹری اور سکینگ کا کہا جس پر ان دونوں نے ٹرک انٹر کروانے کے بعد اسکی سکینگ شروع کروا دی
جیسے ہی ٹرک کی سکینگ کا عمل شروع کیا گیا تو کارپٹ رولوں میں چھپائی گئی پچاس کلو سے زائد ہیروئن برآمد کر نے کے بعد پولیس نے ان ہی بے گناہ پانچ افراد کو گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا ایک ماہ کا عرصہ گذرنے کے باوجود پانچ بے گناہ ناکرددہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں جبکہ اصل تاجر راولپنڈی اور اسلام آباد میں پھر رہا ہے چکوٹھی ٹریڈ سینٹر سے منشیات برآمدگی میں گرفتار دو افراد کا تعلق وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے آبائی ضلع جہلم ویلی ہٹیاں بالا ایک کا مظفرآباد اور دو کا ضلع باغ سے ہے اور گرفتار بے گناہ افراد کی اکثریت کا تعلق بھی حکمران جماعت مسلم لیگ ن سے ہے گرفتار افراد اور ان کے ورثاء گذشتہ ایک ماہ سے انصاف کے مطالبے کر رہے ہیں لیکن وزیراعظم آزاد کشمیر کے آبائی ضلع میں ایک ماہ سے بے گناہوں کو انصاف میسر نہیں آیا جس وجہ سے گرفتار افراد انکے ورثاء اور سول سوسائٹی کی تشویش میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جناب وزیراعظم اگر آپ اپنی شان میں گستاخی نہ سمجھیں تو گرفتار پانچ بے گناہ افراد ان کے ورثاء اور عوام آپ سے پو چھنے میں حق بجانب ہے کہ جناب کے آبائی ضلع میں مظلوموں اور بے گناہوں کو انصاف کب فراہم ہو گا؟یا یہ پانچ بے گناہ بھی اپکے دور سلطنت میں ناکردہ گناہوں اور رزق حلال کمانے کی سزا پوری عمر جیلوں میں گذار کر بھگتیں گے حضرت عمر فاروق نے اپنے دور حکومت میں کہاتھا کہ اگر ایک کتا بھی بھوک اور پیاس سے مر گیا تو اسکی بھی پوچھ مجھ سے ہو گی تو راجہ فاروق حیدر صاحب کیا آپکو ان بے
گناہوں کے بارے میں جواب نہیں دینا پڑے گا ذرا سوچیے گا کیونکہ ان بے گناہوں پر گزرنے والا ہر لمحہ آج قیامت ہے لیکن آپ نے کل قیامت کے دن جوابدہ ہونا ہے کیونکہ آپ کی حکومت میں آپ کی عوام اپ کے سامنے بے گناہ ہوتے ہوئے بھی پابندِ سلاسل ہے