سر سید احمد خاں ۔ سفیر امت محمد

ابن انشاء (مرحوم) نے پاکستانی قوم کو ایک ہجوم سے تشبیح دی تھی ۔ ہم نے من حیث القوم ان کے اس دعوے کو کبھی غلط ثابت کرنے کی کوشش نہ کی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس ہجوم کی جہالت اور آبادی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ گو کہ ہمیں علم کے حصول کے لیے چین جانے تک کا حکم رسول ۖہے لیکن ہم نے تو کبھی اپنی قومی اور مذہبی تاریخ کا مطالعہ بھی نہیں کیا ۔کسی اور پر تنقید کرنے کی بجا ئے میں اپنے ہی گریبان میں جھانکوں تو ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اپنے قومی مشاہیر کے بارے میں بہت کم جانتا ہوں ۔یہ تو اللہ پاک بطفیل پنجتن  سید رضا علی کاظمی پر اپنا فضل و کرم مزیدنچھاور کرے جنہوں نے مجھے سر سید احمد خاں سے صحیح معنوں میں متعارف کرایا ۔ تب میں نے سر سید احمد خاں کی شخصیت کے متعلق پڑھنا شروع کیا اورآج اس میں سے کچھ تحریر کی صورت عوام الناس اور خواص تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
سرسید احمد خاں 17اکتوبر 1817عیسوی بمطابق 5ذی الحج1232ہجری کو دہلی میں پیدا ہوئے .اسی مناسبت سے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سر سید احمد خاں کا 200واں یوم پیدائش ملی اورعلمی و ادبی جوش و خروش سے منا رہی ہے۔ اس ضمن میں جہاں ڈاکٹرحسن الامین اورڈاکٹر نجیبہ عارف کا خاں صاحب کی علمی و ادبی خدمات کے علمی و ادبی جشن کے انعقاد کا فیصلہ انتہائی مستحسن اقدام ہے وہیں حکمران طبقے سے بھی گذارش کی جاتی ہے کہ سر سید احمد خاں کی ملی خدمات کے اعتراف میں خاں صاحب کی عملی جدوجہد کوآج کے زمانے میں ایک بار پھر سے بالکل اسی طرح عملا ًدہرایا جائے جیسے سر سید احمد خاں نے اپنی زندگی میں جدوجہد کی کیونکہ خاں صاحب کے اور آج کے دور میں فرق اتنا ہے کہ اس وقت استعمار ہمارا حاکم اور قوم کچھ متحد تھی جبکہ آج ہمیں بیرونی عناصر اندرونی طور پر کمزور کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔
ان کا مکمل نام سید احمد تقوی جبکہ مشہور سر سید احمد خاں ہے ۔سر سید احمد خاں کو سر کا خطاب حکومت برطانیہ نے دیا۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ آپ کے نام کے آخر میں جو خاں ہے وہ " ن "کے ساتھ نہیں بلکہ "ں"کے ساتھ ہے جو اردو ادب میں کسی شخصیت کو محترم ،مکرم اور معزز کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دکھ ہوتا ہے "سر سید احمد خاں"کو "سر سید احمد خان"پڑھ کریا سن کر۔گو کہ اردو دان اب اس کووقت کے ساتھ ہونے والی لسانی تبدیلی میں شمار کرتے ہوئے "خاں"کی بجائے "خان"تسلیم کرتے ہیں ۔
والد گرامی میر متقی محمد مغل بادشاہ کے دربار میں اعلی عہدے پر فائز تھے جبکہ دادا سید ہادی جواد ابن امام الدین عالمگیر دوئم اور نانا خواجہ فرید الدین اکبر دوئم کے قریبی رفقاء اور عہدے داران میں تھے ان کی والدہ عزیز النساء انتہائی نفیس ،زیرک اور علم دوست شخصیت تھیںسید احمد کی تعلیم و تربیت والدہ کے زیر سایہ انتہائی سخت مذہبی ماحول لیکن جدید طرز پر ہوئی۔سر سید احمد خاں نے بھی متعدد بار اپنی تعلیم و تربیت میں والدہ کے مثبت لیکن سخت طرز عمل کا اعتراف کیا۔ابتدائی تعلیم گھر میں ایک خاتون قاریہ سے قرآن پاک کے ناظرہ کی حاصل کی۔کچھ عرصہ مولوی حمید الدین نے بھی گھر میں پڑھایا ۔اپنے دورکی دو عظیم اسلامی درسگاہوں مرزا مظہر جاناں کے جانشین شاہ غلام علی کی خانقاہ اور شاہ عبدالعزیز کے مدرسے سے عربی ،فارسی اسلامی فقہ اور اردو کی تعلیم حاصل کی ۔ شاہ غلام علی نے سید کا نام احمد رکھا اور آپ کی بسم اللہ کی تقریب بھی انہوں نے ہی کی۔ آپ کے ننہیال میں ہندسہ اور ریاضی بہت مقبول تھی اسی لیے ان موضوعات کی تعلیم کے لیے اپنے ماموں زین العابدین خاں جبکہ طب کی تعلیم کے لیے حکیم غلام حیدر سے فیض حاصل کیا۔سر سید نے علم الفلکیات کا علم بھی حاصل کیا جبکہ کھیلوں میں تیراکی، تیر اندازی اور پہلوانی کی تربیت حاصل کی۔ادویہ سازی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی لیکن مکمل کیے بنا ہی چھوڑ دی۔ 1838میںوالد کی وفات کی وجہ سے ان کا خاندان شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گیا۔ اس وقت سر سید صرف اکیس سال کے تھے اور اپنے خالو خلیل اللہ خاں کے دفتر میں بھرتی ہو گئے جو صدر امین دہلی تھے کچھ عرصہ بعد کمشنرآگرہ کے دفتر میں نائب منشی ہو گئے۔1841ء میں قانون کا امتحان پاس کیا اورمین پوری میں جج بھرتی ہو گئے۔ ترقی کر کے "جج سمال کاز"(منصف عدالت خفیہ) ہوئے اور فتح پور سیکری، دہلی ، روہتک،بجنور، مراد آباد ،غازی پور،علی گڑھ اوربنارس میں دوران ملازمت قیام رہا۔1876ء میں ملازمت ترک کر کے علی گڑھ میں مکمل سکونت اختیار کی اور اپنے مشن اور مقصد پر کلی توجہ مرکوز کی۔1878ء میں امپریل کونسل ، 1882ء میںایجوکیشن کمیشن  جبکہ 1887ء میں پبلک سروس کمیشن کے رکن کے طور پر کام کیا ۔1888ء میں سی ایس آئی کا خطاب ملا 1889ء میں ایڈانبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔سر سید نے ضعیفی کے باوجود محنت  کرنانہ چھوڑا اور صحت کی ابتری کے باعث 27مارچ 1898عیسوی بمطابق  5ذی قعدہ 1315ہجری کوحاجی اسماعیل خان کے گھر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔سر سید احمد خاں کو ان کی قائم کی گئی علی گڑھ یونیورسٹی کی سر سیدمسجد سے متصل صحن میں دفن کیا گیا۔ان کے جنازے میں رشتہ داروں ، مسلمانوں اور برطانوی دوستوںکی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جس طرح حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا اپنے باپ کے نقش قدم پر نہ چلا ایسا ہی کچھ معاملہ سر سید احمد خاں کے ہاں نظر آتا ہے ۔ کتاب دین و دانش جلد دوئم کے ایک قطعہ کے مطابق انہیں ان کے بیٹے سیدمحمد محمود نے بڑھاپے میں گھر سے نکال دیا نیز سر سید احمد خاںکی تدفین بھی نواب محسن الملک اور دیگر کے عطیے اور چندے سے ہوئی۔ سر سید احمد خاں کے مذہبی، قانونی ،علمی اور ادبی شاہپاروںمیں قابل ذکر ان کی قرآن مجید کی تفاسیرکے سات والیم ہیں (ابھی کام باقی تھا کہ وقت اجل آپہنچا)،آپ بائیبل پر تبصرے لکھنے والے پہلے مسلمان مصنف بھی ہیں ۔     
علاوہ ازیں احکام طعام ، الدعا ولاستجابہ ، لایل محمڈن آف انڈیا، سیریز آف ایسیز ان دی لائف آف محمد،اسٹیمپ ایکٹ،لیمیٹیشن ایکٹ،ویمن رائیٹس ایکٹ، آثار السنادید،اسباب بغاوت ہند ، تزک جہانگیری، تاریخ فیروز شاہی، سیرت فریدیہ، تحفہ حسن،مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ (تقاریر اور لیکچرز کا مجموعہ) اور بہت سی دیگر کتب کی مصنف ہیں۔سر سید 30مارچ1866ء میں ہندوستان کے پہلے انگریزی اور اردو ہفت روزہ جریدے علی گڑھ انسٹیوٹ گزٹ (سائینٹیفک سوسائٹی) کا اجراء عمل میں لائے۔اس کے بعد سر سید نے تہذیب اخلاق کے نام سے ایک رسالہ بھی نکالاجو 1871سے 1897تک مسلمانوں کے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کی جانب راہنمائی کرتا رہا۔1981ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سید حامد نے اس رسالے کو دوبارہ شائع کرنا شروع کیا جو ابھی تک باقاعدگی سے چھپتا ہے۔
 سر سید احمد خاںنے 1857کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی مکمل پسپائی کے بعد برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ہمت ،حوصلہ اور سہارا دیا اور تعلیم بالخصوص انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی حمایت بھی کی اور ترغیب بھی دی۔ یہ اس وقت کا دور ہے جب علماء نے انگریزی تعلیم نہ سیکھنے کے فتوی صادر کر دیے تھے ۔سر سید احمد خاں نے اپنی دور اندیشی اور تحقیقی فکر سے جان لیا تھا کہ انگریزی تعلیم کے بغیر مسلمان ترقی کر سکتے ہیں نہ ہی انگریز سرکار سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔اس مقصد کے لیے انہوں نے1859ء میں مراد آباد میں گلشن سکول قائم کیا1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ سکول اس تعلیمی سلسلے کی اگلی پیش رفت تھی۔اگلے ہی سال انہوں نے سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی دوران ملازمت جب علی گڑھ میں پوسٹنگ ہوئی تو 1867ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن اینگلواورینٹل سکول کی بنیاد رکھی جو 1875ء میں کالج اور سر سید کی وفات کے بعد 1920ء میں یونیورسٹی بنا۔ مسلمان فارغ التحصیل طلباء کی انڈین سول سروس میں شمولیت کے لیے راہنمائی ،حوصلہ افزائی اور مالی معاونت کے لیے سر سید احمد خاں نے 1883ء میںمحمڈن سول سروس فنڈ ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔1886ء میں انہوں نے علی گڑھ میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس منعقد کی اس کانفرنس میں مولانا شبلی نعمانی ،مولانا الطاف حسین حالی،مولانا نذیر احمد،نواب محسن الملک اور اس وقت کے جید علماء اور مسلم رہنما تشریف لائے۔علی گڑھ کے اس سکول ، کالج اور یونیورسٹی نے برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں گہرا رنگ ڈالا۔پاکستان کے قیام میں علی گڑھ یونیورسٹی کے مولانا محمد علی جوہر،سردار عبدالرب نشتر،مولانا شوکت علی،بابائے اردو مولوی عبد الحق اور پاکستان کے دو وزرائے اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں اور خواجہ ناظم الدین سمیت بہت سے دیگر تعلیم و تربیت یافتہ مسلمان نوجوانوں کی جہد مسلسل شامل ہے۔
گو سر سید احمد خاں کی زندگی کی جدوجہد کے کسی ایک کو پہلو کو بھی ایک مقالے میں بیان نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کی زندگی کے ایک دن کو بھی یقینا ایک چھوٹے سے کالم میں لکھنا نا ممکن ہے ۔ درج بالا تحریر میں بھی میں بہت سارے حقائق کو نظر اندازکر گیا ہوں جس کے لیے اپنی اس تحریر کے قاریوں سے معذرت خواہ ہوں ۔در حقیقت سر سید احمد خاں کو جتنا پڑھا جائے آپ خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ان کو عطا کردہ  مذہبی،قانونی، علمی ، ادبی، تخلیقی، تخیلاتی صلاحیتوں کے معترف ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ ان کا سب سے بڑا کمال دو قومی نظریہ کی تخیلاتی اساس فراہم کرنااور مملکت خداداد پاکستان کے لیے راہ ہموار کرنا ہے ۔ آج ہم اس آزاد ملک پاکستان میں تمام مذہبی منافرتوںحتی کہ اپنی مساجداور امام بارگاہوں کی ایک دوسرے سے بزور اسلحہ حفاظت کرنے اور لسانی و جغرافیائی جھگڑوں کے بادجود خوش و خرم اور آزادی سے رہ رہے ہیں ۔ ہماری قانون ساز اسمبلیاں ملک اور عوام کی بہتری کے لیے قانون سازی کر رہی ہیں اگر مذہب وملت کے خلاف کوئی قانون یا اقدام ہوتا ہے تو ہم آزاد عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں ۔ماڈل ٹائون واقعے کے باوجود ہم اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے میں آزاد ہیں۔میں ان لوگوں سے جو سر سید احمد خاں یا دو قومی نظریہ اور اس کے حامیوں سے اختلاف کرتے ہیں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا دہشت گرد ،ان کے حواری اور ماڈل ٹائون واقعے کے ذمے داران اس ملک پاکستان میں چھپتے پھر رہے ہیں یا دندناتے پھر رہے ہیں؟۔ ہماری بہادر افواج ضرب عضب ہماری اور ملک کی حفاظت کے لیے کر رہی ہیں یا ہمارے خلاف کر رہی ہیں؟۔ کیاسپہ سالار اعظم پارا چنار میں ہونے والے ظلم کا ازالہ کرنے کے لیے خود وہاں نہیں گئے تھے؟۔ کیا انہیں مقبوضہ کشمیر کے مسلمان آزاد نظر آتے ہیں ؟۔کیا آپ کومودی بلکہ موذی زدہ ہندوستان کے مسلمان اور دیگر اقلیتیں اپنی مذہبی عبادات آزادی سے کرتے نظر آتے ہیں ؟ ۔کیا ہندوستان کے مسلمان اپنے خلاف ہونے والے ظلم و زیادتی پر وہاں احتجاج کر سکتے ہیں؟۔کیا ہندوستان میں مسلمان عید الاضح پر گائے کو ذبح کر سکتے ہیں ؟۔جی بالکل ! پاکستان کے حوالے سے کیے گئے تمام سوالوں کے جواب مثبت جبکہ ہندوستان کے حوالے سے کیے گئے تما م سوالوں کے جواب نفی میں ہیں اس لیے سر سید احمد خاں اور دو قومی نظریہ کی بے جا مخالفت کا چورن کہیں اور جا کر بیچئے ۔ اس کے خریدار کہیں اور ملیں گے۔
 اب اپنی اس تحقیق کے عنوان کی طرف بڑھتا ہوں۔ سر سید احمد خاں کی کتب کا مطالعہ کریں یا ان کی زندگی کی جہد مسلسل پر نظر دوڑائیں مجھے تو وہ ہر لمحہ اور لحظہ سفیر امت محمد نظر آتے ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شکست، مغلیہ حکومت کے انہدام اور برطانوی راج کے قیام کے فوراً بعد آپ نے ہی تو مسلمانوں کی ہمت بندھائی ،ان کو حوصلہ دیا ، انہیںجدید انگریزی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی اور برطانوی حکمرانوں سے دوستی کرنے پر آمادہ کرتے رہے ۔آپ برطانوی حکمرانوں کے مسلمانوں کے ساتھ رویوں میں بہتری کے لیے اسلام اورمسلمانوں کو برطانیہ کا دوست ثابت کرنے میں کوشاں رہے۔ اس کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بائبل پر تبصرے کیے ،اسباب بغاوت ہند اور لایل محمڈن آف انڈیا لکھ کر مسلمانوں کا مثبت چہرہ برطانیہ کے سامنے عیاں کیا۔اس ضمن میں سر سید کا سفر برطانیہ اور اس کی یاداشتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔۔ اپنی فروری 1869ء کی اشاعت میں علی گڑھ انسٹیوٹ گزٹ (سائینٹیفک سوسائٹی) نے پر جوش انداز میں اپنے قاریوں کو بتایا",انسٹیوٹ کے تاحیات اعزازی سیکرٹری، مولوی سید احمد خاں صاحب بہادر،ماتحت جج (درجہ اول)اور جج (سمال کاز)برائے بنارس اپریل 1869ء میں سفر برطانیہ کو روانہ ہو رہے ہیں۔"
اس سفر کے لیے بغرض دفتری چھٹی سر سید نے حکومت کو جو درخواست دی وہ ہر دور کے سفارت کاروں کی راہنمائی اور معاونت کرتی معلوم ہوتی ہے۔درخواست کا متن ترجمے کے ساتھ کچھ یوں ہے، "میںاس امر سے یقینامتفق ہوںکہ ہندوستان کی مثالی فلاح و بہبود اور حکومت برطانیہ (جہاں ملازمت کر کے میں فخر محسوس کرتا ہوں)کے استحکام اور پائیداری  جیسے مقاصد کے فوری حصول کے لیے ہندوستانیوں اور یورپینز کے درمیان باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔میرے خیال میں اس ہدف کے حصول کے لیے ہندوستانیوں کو یورپ کے سفر کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ وہ یورپین ممالک کی شائستگی ، کامیابیوں اور ترقی کا بذات خود مشاہدہ کرسکیںنیز انگریزوں کی دولت، طاقت اور دانائی کے بارے میں ادراک حاصل کر سکیں۔انہیںہندوستان کی ترقی کے لیے انگلینڈ کے شہریوں سے کامرس میں ان کی مستعدی کے بہت سے عمدہ اور کار آمد مظاہر سیکھنے چاہیںاور یہ بھی مشاہدہ کرنا چاہیے کہ وہاں قومی دولت اور وسائل کو فیکٹریوں اور کھیتوں کی پیداوار بڑھانے، ہسپتالوں اور چیرٹی ہومزکی بہتری اوراپنے شہروں کی صفائی پر خرچ کیا جاتاہے۔
اسی غرض سے میں بذات خود انگلینڈ کے سفر کا ارادہ رکھتاہوںتاکہ اپنے ہم وطنوں کے لیے ایک مثال قائم کر دوں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ یہ سفر نہ صرف میرے مشاہدے میں خاطر خواہ اضافے کا باعث ہو گا بلکہ میری سفری یاداشتوںسے میرے ہم وطنوں کو بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔میں ان کو وہ تمام عمدہ مظاہر سیکھائوں گا جو میں وہاں سیکھوں گااور اپنے نقش قدم پر چلنے کے لیے ان کی ہر ممکن راہنمائی کروں گا۔"
 اس دور میں ولیم معیرنے 4جلدوں پر محیط رسول خدا  ۖکی ذات اقدس کے بارے میں انتہائی متنازعہ کتاب "A life of Mahomet and history of Islam"لکھی اور جو 1864ء میں لندن سے شائع ہوئی۔تب سے سر سید احمد خاں اس کا جواب تیار کرنے کے لیے بے قرار تھے۔بہت سارا تحقیقی کام ہندوستان میں کر لیا لیکن ہندوستان میں خاطر خواہ انگریزی کتب کی کمی کی وجہ سے سر سید کو سفر برطانیہ کی ضرورت تھی۔ سر سید احمد خاں کا سفر برطانیہ یکم اپریل 1869ء کو شروع ہوا اوربحری جہاز سے سفر کرتے ہوئے 4مئی کو برطانیہ پہنچے ، دوران سفر میں ان کی ملاقات فرانسیسی ماہر تعمیرات اور نہر سویز کے خالق"فردینندڈی لیسپس"سے ہوئی اس کی قوم دوستی سے بہت متاثر ہوئے۔برطانیہ میں 17 ماہ قیام کرنے کے بعد 4ستمبر 1870ء کو ہندوستان واپسی کے سفر کا آغاز کیا۔سر سید نے برٹش میوزیم کی لائبریری میں بے پناہ مطالعہ اور تحقیق سے جوابی کتاب پہلے اردو میں لکھی اور اس کا انگریزی ترجمہ کرکے 1870ء کو لندن سے ہی چھپوایا اس کتاب کا نام "الخطبات الاحمدیہ فی العرب والسیرت المحمدیہ"ہے۔اس کتاب کو لکھنے میں جہاں سر سید نے دن رات تحقیق کی وہیں اس کی چھپائی کے لیے اپنے دہلی آفس کو آفس کی کتب اور تمام فرنیچر بیچنے اور علی گڑھ آفس کو علی گڑھ میں قرض کے حصول کے لیے خطوط لکھے۔اپنی تمام جائیداد تو وہ پہلے ہی اس سفر کے لیے گروی رکھ آئے تھے۔اسی دوران ہندوستان میں ان کی اکلوتی اور لاڈلی صاحبزادی انتقال کر گئیں۔اس صدمے پر انہوں نے صبر و شکر کیا۔اس کتاب کی اشاعت نے یورپ بالخصوص برطانیہ میں اسلام ، حضرت محمد مصطفی ۖ اور مسلمانوں کے بارے میں بہت سارے ابہام دور کیے اور یورپین عوام کے لیے اسلام کا فلسفہ سمجھنے میں بہت معاون ثابت ہوئی۔ نیز مسلمانوں میں بھی اس کتاب کی اشاعت سے خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مسلمان جو جدید تعلیم اور انگریز سرکار کی نوکری ترک کر رہے تھے وہ تعلیم اور نوکریوں کی طرف پلٹنے لگے۔یہی وجہ ہے کہ سر سیداحمد خاں کی تعلیمات اور عملی جدوجہد کی روشنی میں ہم انتہائی جامع اور موثر خارجہ پالیسی کی تشکیل ممکن بنا سکتے ہیں۔