کشمیرکی آواز دبنے نہ پائے

برسوں ادھر برطانیہ سے ایک اہم رہنما پاکستان تشریف لائے تھے۔ان صاحب نے ایک عرصے تک کشمیر کے سفارتی محاذپر بے پناہ خدمات سر انجام دی تھیں ۔حکومتی سطح پر ان کی کافی آ بھگت ہوئی ۔ ایک محفل میںجہاں پاکستان ٹیلی ویژن کی اہم شخصیات اور یار دیرینہ محمد علی درانی بھی موجود تھے۔ برطانیہ سے آنے والی شخصیت کو سب نے تقریبا گھیر رکھا تھا ۔ ہمارے حکومتی اہلکار ان سے بار بار یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وہ بین الاقوامی نشریاتی اداروں بالخصوص بی بی سی اور سی این این پر ایک بھر پور مہم شروع کریں تا کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر اجاگر ہو ۔ان کا خیال تھا کہ اگر وہاں کی کشمیری کیمیونٹی مالی وسائل بھی جمع کر ے تو یہ مہم نتیجہ خیزثابت ہو سکتی ہے۔ مہمان شخصیت نے بہت غور سے ان کی التجائیں سنیں اور چھوٹتے ہی ان سے پوچھا۔ یہ بتائیں آپ کا اپناٹیلی ویژن اور ریڈیو مسئلہ کشمیر کے لیے کتنا وقت دے رہاہے۔اس اچانک سوال پر میزبان سہم سے گئے ۔ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اچھا ہوا اس وقت کھانا لگ گیا اور ہمارے سارے دانشور کھانے کی جانب یوں لپکے جیسے باقی دنیا مکمل طورپر فتح کر کے ہی لوٹیں گے ۔مسئلہ کشمیر بر صغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا تو ہے ہی۔ یہ دانشور اور پالیسی ساز اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشمیر کی اہمیت پاکستان کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے۔اہل کشمیر کی پاکستان سے محبت کا اندازا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اہلیان کشمیرنے قراردادالحاق پاکستان کے ذریعے اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کر دیا تھا۔ تب سے کشمیری پاکستان کے دکھ کو اپنا دکھ اور پا کستان کی خوشی کو اپنی خوشی جانتے ہیں۔ مقبوضہ وادی کے مکین اپنی برسوں کی جدوجہد، ظلم، جبر اور اذیت کدوںمیں طویل اذیتیں سہنے کے باوجود پاکستان کو دنیا کی نعمتوں میں سے بڑی نعمت تصور کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ریت اور بجری کے بجائے خون اور ہڈیوں سے اٹھائی جانے والی بنیادوں کے اس ملک میں حالات اتنے گھمبیر ہوگئے کہ یہاں کے سیاستدانوں، دانشورں اور ذرائع ابلاغ کو تکمیل پاکستان کی جنگ لڑنے والے وفا شعاروں اور جاں نثاروںکے بارے میں سوچنے کی فرصت تک نہیں۔پاکستان کی تیزی سے پھیلتی میڈیا انڈسٹری تجارت و سرمایے کی وہ دنیا ہے جہاں نظریات ، حق خودارادیت کی تحریکوں ، لاکھوں جانوں، عزتوں اور عصمتوں کی کوئی قیمت نہیں بلکہ ریٹنگ اور ریٹرن کی اس بے رحم دنیا میں ان جانوں، عزتوں اور عصمتوں کا شکاری اہم دکھائی دیتا ہے۔ذرئع ابلاغ کے نجی اداروں کا یہ رویہ جہاں کشمیری عوام کا منہ چڑاتا ہے وہاں ریاستی ادارے بھی اگر اسی غفلت کا شکار ہو جائیں تو اس کو کیا نام دیا جائے؟اگرآپ کا مظفرآباد جانا ہو تو سی ایم ایچ کے سامنے سے گزرتے ہوئے پری فیب اسٹرکچر میں قائم دفاتر کے سامنے زنگ آلودہ آزاد کشمیر ٹیلی ویژن پی ٹی وی مظفرآباد کا بورڈ نظر آئے گا۔تب آپ کو گلہ پھاڑے چیختے بھارتی میڈیا کی پاکستان مخالف پروپگنڈے کی آوازیں کانوں میں گونجنتی محسوس ہوں گی۔لازوال تحریک آزادی ، مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف اور بھارت کی طرف سے اس مسئلے کو مسلسل خراب کرنے کی روش کا ذکر کرنے کے لیے قائم کیا جانے والا پی ٹی وی کا مظفرآباد سینٹرجسے دنیا اے جے کے ٹیلی ویژن کے نام سے جانتی ہے ، چودہ برس کے بعد بھی اپنی زندگی کی جنگ لڑتا ہوا نظر آتا ہے۔  میں پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے آزاد کشمیر سینٹر کو اے جے کے ٹیلی ویژن کے نام سے ایک پروجیکٹ کے طور پر ریڈیو پاکستان مظفرآباد کی عمارت کے ایک حصے میں شروع کیا ۔اس سینٹرکو چلانے کے لیے ضابطے کی ساری کاروائیوں کو پورا کرتے ہوئے کشمیر سے تعلق رکھنے والے بہترین افراد کو بھرتی کیا گیا اور کیمرے اور دیگر ساز و سامان خریدا گیا۔ اے کے ٹیلی ویژن نے اپنی نشریات کے ذریعے گویا تحریک آزادی کی ترویج کے لیے موثرپلیٹ فارم مہیا کیا لیکن 2005کے تباہ کن زلزلے سے اس کی عمارت گر گئی اور سامان بھی تباہ ہو گیا ۔کچھ عرصے بعد اس کی نشریات تو بحال کر دی گئیں لیکن بطور ادارہ کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ آج چودہ سال گزرنے کے بعد بھی اس سینٹر کو بطور پروجیکٹ ہی ڈیل کیا جا رہا ہے۔ دفاتر کی بلڈنگ تو دور اس کا اسٹوڈیو جستی چادروں سے تیا ر کیا گیا ہے۔پی ٹی وی کے دوسرے صوبائی سینٹرز پربھرتی ہونے والے ملازمین کو میں مستقل کر دیا گیا تھا لیکن کشمیر سینٹر میںچودہ سال سے کام کرنے والے ملازمین اپنی ملازمت کی مستقلی اور پی ٹی وی کے دیگر ملازمین کے برابر حقوق حاصل کرنے کے لیے ہیڈکواٹر کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں۔آزاد کشمیر حکومت نے اس سلسلے میں کو ئی اقدام کیوں نہ کیا ؟چوں کہ آئینی طور پر یہ وفاقی ادارہ ہے آزاد حکومت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔شروع میں یہ طے ہوا تھا کہ حکومت آزاد کشمیر اس سینٹر کے لیے زمین فراہم کرے گی اور پی ٹی وی اپنے دوسرے صوبائی مراکز کی طرح مظفرآباد میں باضابطہ سینٹر اور دوسرے ڈویژنز راولاکوٹ اور میرپور میں اس کے پروڈکشن ہاسز قائم کرے گا۔ پی ٹی وی اپنی آمدن کے لیئے جس طرح ملک بھر سے بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹی وی فیس حاصل کرتا ہے اس سینٹر کی مد میں آزاد کشمیر سے بھی یہ فیس حاصل کرے تو سالانہ 20کڑور سے زائد اور اشتہارات کے ذریعے اس سے دوگنی رقم حاصل کر سکتا ہے جس سے یہ سینٹر اپنے اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ہیڈکواٹر کو بھی بڑی رقم فراہم کرسکتا ہے۔کشمیری عوام کا فطری میلان پاکستان کی طرف ہے ۔ پاکستان کی حکومت نے بھی کشمیر کاز کے قابل اعتماد وکیل اور فریق کے اعتبار سے کردار ادا کیا ہے ۔جس نے جموں کشمیر کے عوام کو حوصلہ دیا ہے ۔لیکن گزشتہ حکومتوںنے جس طرح پینترے بدلے ہیں ، اصولی موقف سے انحراف کی راہیں تلاش کی ہیں اور آوٹ آف دی باکس کے نام پر اصولی اور مبنی بر حق موقف سے فرار کا راستہ اختیار کیا ہے اس نے کشمیری عوام کو مایوس کیا ہے۔ پاکستان سے حال اور مستقبل کے تعلق میں جو دراڑیں پڑی ہیں اور کشمیری عوام میں جو بد دلی پھیلی ہے وہ ایک حقیقت اور پاکستانی حکومت اور اداروںکے لیے لمحہ فکریہ ہے۔تحریک آزادی کشمیر کی اس موثر آواز اے جے کے ٹیلی ویژن کی آواز دبنے سے بچانے اور کشمیر ی عوام میں پھیلنے والی بد دلی کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔اداروں میں اس طرح کی تفاوت محرومیوں کو فروغ دیتی ہے ۔جس کے بعد نفرتیں جنم لیتی ہیں۔سب کو برابری کی سطح پر ساتھ لے کر چلنے سے ریاست مضبوط ہوتی ہے ۔حکمرانوںکو ان مصائب کا علاج کرناہوگا۔جو کسی اتفاقی حادثے یا ہنگامے کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے پیش رووں کی مسلسل بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ریاست جموں وکشمیر کے عوام نے ہردور اور ہر زمانے میں پاکستان سے اپنی لازوال محبتوں کے ثبوت فراہم کیے ہیں ۔ منگلا ڈیم کی تعمیر ہو یا گل پور ڈیم کا مسئلہ ، ہولاڑ میں بجلی کا منصوبہ ہو یا دنیا کابہترین اور انوکھانیلم جہلم پراجیکٹ ،کشمیریوں نے پاکستانی حکومت کے فیصلوںکے سامنے ہمیشہ سر تسلیم خم کیا ہے۔ اس کے علی الرغم پاکستان کے چاروں صوبوںمیں پانی اور بجلی کے مسئلے پر جس قدر کھنچا تانی جاری ہے اس کو دیکھ کرکشمیریوں کی قربانیوں کا اندازہ بہتر طور پر لگایا جا سکتا ہے۔قربانیوں اور وفاشعاری میںکشمیریوں نے حد کر دکھائی ہے۔ماضی کے ستر برس اس پر گواہ ہیں۔اب وقت ہے کہ ان ایثارکیش لوگوں کو شکوے سے بچایا جائے۔ان کی آواز کو دنیا تک پہنچنے کا جو جمہوری راستہ موجود ہے اس راستے میںبیورو کریسی کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ایسی بیوروکریسی جسے ریاست سے زیادہ شاہوں کے مفادات عزیزہوں ،وقت آتا ہے کہ لوگ اپنے راستے خود تلاش کرنے لگتے ہیں،پھر برسوں تک پچھتاوئے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اللہ وہ وقت نہ لائے کہ یہ ملک ایسی مشق کا اب متحمل نہیں ہو سکتا۔کشمیر کی آواز بلند کرنے والوں کے گلے پر سے بیوروکریسی کا ہاتھ ہٹانے کے لیے حکمران اپنا کردار ادا کریںاس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔