طلباء کی قوت
تاریخ پاکستان کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہر دور کے حکمرانوں نے خواہ وہ جمہوریت کے نام لیوا ہوں ، آمریت کی پیداوار ہوں ، روشن خیال ہوں یا قدامت پسند، تقریبا ً سب ہی طلبہ کی قوت سے خائف رہے۔ پاکستان میں آج تک شاید ہی کوئی حکومت برسر اقتدار آئی ہو جس نے طلبہ کو اپنی طاقت سمجھا ہو اور ملک و قوم کی ترقی کے لئے اسے استعما ل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہو۔ جب سے طلبہ یونینز پر پابندی عائد ہوئی ہے ، طلبہ کی کردار سازی، ذہن سازی اور اخلاقی تربیت کے تمام راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ اصولی طور پر آمریت کے خاتمے کے بعد جمہوری ادوار حکومت میں طلبہ یونینز پر پابندی ختم ہونی چاہئے تھی لیکن طلبہ کی قوت سے سہمی ہوئی حکومتوں نے ماضی پر نظر رکھتے ہوئے اس پابندی کو آج تک برقرار رکھا ہوا ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی دو حکومتیں، نواز شریف کی سابقہ دو حکومتیں اور ن لیگ کی موجود ہ حکومت، مشرف دور میں قائم ہونے والی حکومتیں ، ان سب میں سے کسی کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دے۔ اس پابندی کو تقریبا ً 34سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔آج اگر 25سال کے کسی نوجوان سے طلبہ یونینز کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ یقینا ً حیرت زدہ ہو جائے گا کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں طلبہ یونینز جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی ۔ اسے نہیں معلوم کہ ہر کالج اور یونیورسٹی میں ہرسال طلبہ یونینز کا باقاعدہ انتخاب ہوتا تھا۔ طلبہ اپنے نمائندوں کا باقاعدہ طور پر چنائو کرتے تھے اور ایک ایسی کونسل وجود میں آتی تھی جس کا صدر اور سیکرٹری جنرل ہوتا تھا۔ یہ ایک چھوٹی حکومت کی مانند ہوتی تھی جو ادارے کے پرنسپل اور اساتذہ کی مدد سے ہم نصابی سرگرمیوں کو منظم کرتی تھی ۔ مشاعرے،مباحثے،معلومات عامہ کے پروگرامز، قرات اور نعت خوانی کے علاوہ کھیلوں کے مختلف مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ ممتاز شخصیات کو بحیثیت مہمان مدعو کر کے ان کے خیالات سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ طلباء و طالبات ان کے تجربات کی روشنی میں آگے بڑھنے کی راہوں کا تعین کرتے اور یہی صحت مند اور مثبت روایات ہمارے تعلیمی اداروں کے ماحول کو تنگ نظری اور انتہا پسندی سے دور رکھتی تھیں۔ طلبہ میں جمہوری اقدار کی سوجھ بوجھ پیدا ہوتی تھی۔ وہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا سلیقہ سیکھتے ، اپنے حقوق کو سمجھتے اوراپنے فرائض کو پہچانتے تھے۔ اختلاف رائے کے باوجود وہ تصادم ، جھگڑے یا عدم برداشت کی سطح تک نہیں پہنچتے تھے۔ طلبہ یونینز پر پابندی سے طلبہ صحت مند سرگرمیوں سے مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں۔ آج کا طالب علم ایک ایسا نوجوان ہے جسے مختلف دائروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ رواداری ، تحمل، برداشت جیسے جذبات ختم ہو چکے ہیں۔ طلبہ یونینز سے مکالمے کو فروغ ملتا تھا ، اساتذہ اور طلبہ کے درمیان رابطے بڑھتے تھے۔ مسابقت کی فضا اور ماحول کو جنم ملتا تھا۔ طلبہ یونینز صلاحیتوں کے فروغ کے مواقع فراہم کرتی تھیں۔ لیکن جب آمرانہ ذہنیت کی تکمیل کے لئے طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی گئی تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد انتہا پسندوں، شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے نرغے میں آ گئی۔ جو تعلیمی ادارے طلباء و طالبات کی صلاحیتوں کو نکھار کر بہترین مقرر، بہترین کھلاڑی، بہترین شاعر، بہترین ادیب اور دیگر شعبوں کی ممتاز شخصیات پیدا کرتے تھے وہ انتہا پسند پیدا کرنے لگے۔ ہمارا نوجوان با صلاحیت ہے مگر بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ اسے بہترین رہنمائی فراہم کرنے کے قابل نہیں۔ خصوصا ً ہماری سیاسی جماعتوں نے طلبہ کی رہنمائی اور قیادت کے ضمن میں مجرمانہ غفلت برت رکھی ہے۔ ہر سیاسی جماعت اپنی بغل بچہ تنظیم یا یوتھ ونگ رکھتی ہے مگر ان کارکنوںکا کام صرف زندہ باد، مردہ باد کے نعرے لگانے، کرسیاں بچھانے ، پوسٹر چپکانے اور جھنڈے لگانے کے سوا کچھ نہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس ان نوجوانوںکے مستقبل کے حوالے سے کوئی پروگرام نہیں ہے۔ گزستہ ستر سال کے دوران طلبہ کی کائونسلنگ، روزگار کی فراہمی، اعلیٰ تعلیمی وظائف دینے کے حواے سے ان سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا اندازہ لگایا جائے تو بالکل صفر نظر آئے گی۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ اگر طلبہ یونینز بحال ہو گئیں تو طلبہ سیاست میں ملوث ہو جائیں گے، اور سیاسی جماعتیں انہیں انتشار پیدا کرنے کے لئے استعمال کر سکتی ہیں۔ یہ اعتراض اس لحاظ سے بے معنی ہے کہ ملک کے اندر بے شمار طلبہ تنظیمیں وجود میں آئی ہیں جبکہ کچھ ملک گیر سطح پر موجود ہیں ۔ یہ طلبہ تنظیمیں ہمیشہ سے سیاست میں حصہ لیتی رہی ہیں ۔ اکثر اوقات تو ان طلبہ تنظیموں کے درمیان لڑائی جھگڑے اور تشدد کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں جیسا کہ پچھلے عرصے میں قائد اعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں ہو چکا ہے۔ ان طلبہ تنظیموں کی وجہ سے تعلیمی امن بھی خطرے میں پڑ چکا ہے لیکن کوئی اس پر آواز نہیں اٹھاتا۔ پابندی تو سیاسی جماعتوں کی ان ذیلی تنظیموں پر لگنی چاہئے کہ جن کی وجہ سے تصادم کے واقعات بڑھ رہے ہے ہیں یا طلبہ کی پڑھائی متاثر ہو رہی ہے۔ طلبہ یونینز تو اس طرح کے حادثات و واقعات کی روک تھام اور تدارک(باقی صفحہ6بقیہ نمبر3)
کر سکتی ہیں اور طلباء کو ایک بہترین تعلیمی ماحول فراہم کر سکتی ہیں ۔
موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے طلبہ یونینز کی بحالی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کے منصوبوں پر بھی کام کیا جانا اشد ضروری ہو چکا ہے۔ ایک ایسا طالب علم جسے اپنی قابلیت، مہارت یا تجربے کی بنیاد پر باعزت اور تسلی بخش روزگار مل جائے وہ کبھی بھی کسی منفی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی، غلط ترجیحات کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روز گاری بڑھ رہی ہے وہ معاشرے پر بوجھ بننے کے ساتھ ساتھ منفی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں ۔ طلبہ یونینز کی بحالی کے ساتھ ساتھ پورے تعلیمی نظام کی اصلاح ضروری ہو چکی ہے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام رائج کیا جانا چاہئے جو موجودہ دور کے تقاضوں کی تکمیل کر سکے اور طلبہ کو اس معاشرے کا ایک با وقار اور با کردار شہری بنانے میں مدد گار و معاون ہو۔ طلبہ یونینز کی بحالی ایک راستہ ہے منزل نہیں۔ کیونکہ ثابت ہو چکا ہے کہ اگر نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہ ملے تو ہو غلط راہوں پر چل نکلتے ہیں۔ اگر ہم معاشرے کو ایک با وقار اور با کردار معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نوجوانوں کی اصلاح کے لئے اقدامات یقینی بنانا ہوں گے اورا س مقصد کے حصول کے لئے طلبہ یونینز کی بحالی انتہائی اہم ثابت ہو سکتی ہے۔