تحریک انصاف کی مسلسل انتخابی ہزیمت اوروجوہات
پاکستان تحریک ِانصاف کو اس وقت پنجاب کے انتخابی محاذ پر شدید تنقید اور ہزیمت کا سامنا ہے۔لاہوراین اے 120 اور چکوال کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی شکست کے بعد لودھراںمیں پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری جہانگیر ترین کی نا اہلی سے خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست این اے154 سے حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے ایک متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے غیر معروف امیدوارپیراقبال شاہ کی کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ پنجاب اب بھی مسلم لیگ ن کا ہی گڑھ ہے ۔بلیک ڈکشنری کی بے ساکھی سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے تو نکال دیا گیا لیکن عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکاہے۔ ان ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی مسلسل کامیابیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جب سے سپریم کورٹ کے بنچ نے میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نا اہل کیا ہے، تب سے نہ صرف مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک میں واضح اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے بلکہ میاں نواز شریف کی قیادت بھی عوام میں مزید مقبول ، محبوب اور مضبوط ہوئی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کل تک میاں نواز شریف کی نا اہلی پر '' مجھے کیوں نکالا'' کی پھبتی کسنے والے عمران خان ،اب لودھراں میں 27ہزار سے زاید ووٹوں سے ہونے والی بدترین شکست کے بعد'' مجھے کیوں رُلایا'' کی پھبتی کا شکار ہیں۔شائد اسی کو مکافات عمل کہتے ہیں۔اگر تحریک انصاف کی مسلسل ناکامیوں کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں بڑا ہاتھ عمران خان کی الزامی اور منفی سیاست کا ہے۔ اس کے علاوہ 17جنوری کو مال روڈ لاہور میں طاہر القادری اور آصف علی زرداری کی قربت بھی تحریک انصاف کی ہزیمت کا اہم سبب بنی ہے۔ مال روڈ لاہور کے جلسہ میں عمران خان اور دیگر قائدین نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیج کر نہ صرف پارلیمان کے تقدس کو مجروح کیا بلکہ عوام کے اندر بھی اپنے خلاف ناپسندیدگی کو پروان چڑھایا ۔ علی ترین کی حالیہ ناکامی کا ایک بڑا سبب جہانگیر ترین کے تنخواہ دار ملازمین کی طرف سے لودھراں کے عوام او رپی ٹی آئی ورکرز کے ساتھ ہتک آمیز رویہ بھی رہا ، جبکہ لودھراں میںہونے والے تحریک انصاف کے آخری انتخابی جلسے میں مسلم لیگ ق کے سابقہ مقامی ایم این اے نواب امان اللہ خان سمیت پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کو اسٹیج سے دور رکھنا بھی تحریک انصاف کی لوکل قیادت کی ناراضگی کا باعث بنا ، جس سے لودھراں کے ان ناراض رہنمائوں نے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو علی ترین کے حق میں ووٹ ڈالنے سے روک دیا ۔ تحریک انصاف کی ناکامیوںکا ایک اہم عنصر جہانگیر ترین ، شاہ محمود قریشی ، چوہدری سرور اور علیم خان وغیرہ کے اپنے اپنے دھڑوں کا ایک دوسرے کے خلاف متعصبانہ رویہ بھی ہے۔ ان دھڑوں کے درمیان تحریک انصاف کے مرکزی عہدوں پر قبضہ کی جنگ روز افزوں ہے، جس سے جماعت کو بری طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔ لودھراں الیکشن میں بھی جہانگیر ترین کے مخالف دھڑوں نے پوری کوشش کی کہ علی ترین یہ سیٹ جیتنے نہ پائے تاکہ ترین خاندان کے واش آئوٹ کے بعد جنرل سیکریٹری کا عہدہ حاصل کیا جاسکے۔جہانگیر ترین کے مخالف دھڑے اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
لودھراں کے انتخاب میں ناکامی کے اگلے روز 13فروری کو اسلام آباد میں ہونے والے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے این اے 154کی شکست کو تسلیم کیا اور کارکنوں سے پوچھا کہ ''اس شکست پر آپ لوگ رو کیوں رہے ہیں؟آپ کو تو خوش ہونا چاہئے کہ ایک بچے نے پہلی بار الیکشن لڑا ، اور 91ہزار ووٹ لے لیے۔'' ان کا مزید کہنا تھا :''میرٹ نہ ہوتو بلاول بھٹو بھی پارٹی کے سربراہ بن جاتے ہیں ، جہاں میرٹ نہ ہو وہاں نواز شریف کی جگہ مریم یا حمزہ آجاتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ باپ لیڈر ہوتو بیٹا یا بیٹی بھی لیڈر بن جائے۔'' ورکرز کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے یہ پتے کی بات بھی فرمائی کہ'' لیڈر کبھی بد دیانت لوگوں کا ساتھی نہیں بنتا،منافقت نہیں کرتا اور جھوٹ نہیں بولتا ۔ ''ورکرز کنونشن سے یہ خطاب مایوسی اور نا امیدی کا عکاس تھا ۔ عمران خان کی اکثر تقاریر کی طرح یہ تقریر بھی تضادات کا مجموعہ ہونے کے علاوہ کسی قسم کی دلیل، منطق ، ثبوت، منشور،منصوبہ بندی، پروگرام ، نظرئیے اور انفرادیت سے عاری تھی ۔ اپنی اس تقریر میں وہ کہہ رہے ہیںکہ ایک ''بچے ''نے 91ہزار ووٹ لے کر کمال کیا ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لودھراں میں صرف یہی بچہ ہی اس قابل تھا؟ کیا وہاں پی ٹی آئی کا کوئی ایک بھی جوان یا عمر رسیدہ اورتجربہ کار رہنماء نہیں تھا جس کو اس بچے کی جگہ ٹکٹ دیا جاتا ؟بری طرح ہارنے والے اس بچے کو تھپکی دینے کے ساتھ عمران خان بڑی خوبصورتی سے یہ حقیقت دبا گئے کہ اسی بچے کے والد نے اس حلقہ سے2015ء میں ایک لاکھ اڑتیس ہزار سات سو انیس ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی۔ یعنی آکسفورڈ سکول لندن سے ''ایمر جنسی '' میں بلائے گئے اس بچے نے اپنے والد کی نسبت 48ہزار ووٹ کم حاصل کیے،جس کو عمران خان ایک کارنامہ بنا کربیان کر رہے ہیںاوریقینا '' کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' کا مصداق بن رہے ہیں ۔اپنے خطاب میںجناب عمران خان نے میرٹ اور موروثیت کی بات بھی خوب کہی۔ لیکن شاید وہ یہ حقیقت بھول گئے کہ علی ترین کو این اے 154سے امیدوار برائے قومی اسمبلی منتخب کر کے انھوںنے خود بھی''میرٹ '' اور '' موروثیت'' کی بہت اعلیٰ مثالیں قائم کر دکھائی ہیں ۔ ان مثالوںکے بعد اب ان کو کم از کم کسی دوسرے پر اس حوالے سے اخلاقاً انگلی اٹھانے کا کوئی حق باقی نہیں رہاہے۔ایک سزایافتہ سرمایہ کارکے بے صلاحیت بیٹے کو آگے لاکر عمران خان نے شفافیت، انصاف ، میرٹ، تبدیلی، اعلیٰ اقدار جیسے بلنگ بانگ دعووں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دے دی ہے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں میںکوئی فرق اور امتیاز نہیںرہاہے۔
مزید برآں! اپنے خطاب میں موصوف نے ایک '' ماسٹر پیس'' جملہ یہ بھی فرمایا کہ '' لیڈر بد عنوان کا ساتھی نہیںہوتا، منافقت نہیںکرتااور جھوٹ نہیں بولتا۔ '' اس جملہ کو ماسٹر پیس اس لیے کہا کہ یہی وہ جملہ ہے جس نے پی ٹی آئی کو عروج سے زوال کا راستہ دکھایا ہے۔ اس جملہ کی صداقت میں کوئی کلام نہیں، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ جملہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے زوال اور ناکامیوںکا سبب کیسے بن سکتا ہے؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس سچائی پر مبنی جملہ کو پامال کرنے کا جرم ،اس زوال کا حقیقی سبب ہے۔ دوسروں کو نصیحت اور خودمیاں فضیحت! یہ کس کو نہیں معلوم کہ سچا او رکھرا لیڈر وہی ہوتا ہے جو بد عنوان کا ساتھی نہیں بنتااور ہمیشہ سچ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، اصل مسئلہ تو اس اصول پر عمل کا ہے۔ عمران خان سالہا سال تک جن لوگوں کو کرپٹ ، بد عنوان ، چور ، ڈاکو، چپڑاسی، لٹیرے اور ملک دشمن تک کہتے رہے ، آج پی ٹی آئی کے اسٹیج پر انہی لوگوں کا میلہ لگاہوا ہے۔ ایک نظریہ پر قائم ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کی جڑوں کو دیمک اسی دن لگ گئی تھی جب ان کرپٹ لوگوں کوتحریک انصاف میں خوش آمدید کہا جانے لگا ۔جن کے خلاف دو دھائیوں سے تحریک انصاف جدو جہد کر رہی تھی،نہ صرف ان کو خوش آمدید کہا گیا بلکہ ان کو جماعت کے مرکزی عہدوںپر بٹھا کر تحریک انصاف کی اصل نظریاتی لیڈر شپ کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ۔اب خیر سے فواد چوہدری کو شائد لودھراں کا الیکشن ہارنے کی '' خوشی '' میں تحریک انصاف کا مرکزی سیکریٹری اطلاعات بنا دیا گیاہے۔ یہ وہی فواد چوہدری ہیں،جومشرف بہ تحریک انصاف ہونے سے قبل عمران خان پر اس قدر ''مہربان'' تھے کہ ان کے خلاف بات کئے بغیر ان کا کھانا ہضم نہیںہوتا تھا۔ایک محترمہ فردوس عاشق اعوان ہیں، جن کو عمران خان بذاتِ خود '' کرپشن کی ماں'' کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب خیر سے وہ تحریک انصاف کی مرکزی عہدیدار ہیں۔ خان صاحب پہلے شیخ رشید احمد کو اپنا چپڑاسی رکھنے کے روادار نہیںتھے لیکن اب وہی شیخ صاحب ان کے گلے کا ہار اورغیر اعلانیہ مشیر اعلیٰ ہیں۔کچھ ایسا ہی حال بابر اعوان کا ہے، جن کو '' جھوٹوںکا سردار'' خود خان صاحب نے قرار دیا تھا لیکن اب وہ بنی گالہ کی لانڈری میں ڈرائی کلین ہونے کے بعدپاکستان تحریک انصاف کے وکیل ہیں۔ شاہ محمود قریشی ، سردار آصف ، اشرف سونا، صمصام بخاری ، راجہ ریاض ، نذر محمد گوندل ، نور عالم خان ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ، یار محمد رند وغیرہ پیپلز پارٹی میں تھے تو کرپٹ ، چور اور لٹیرے ، لیکن جب یہ سب تحریک انصاف میں آئے تو سب گناہ اور الزام ختم ۔خان صاحب اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ان'' سابقہ دشمنوں'' کو اپنی جماعت میںڈال کر وہ تحریک انصاف کو مضبوط کر رہے ہیں۔یہ غلط فہمی ان کی جنرل الیکشن میں ہی دور ہو سکے گی کہ وہ تحریک انصاف کو لگی اس دیمک سے کس قدر غلط توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے۔خان صاحب کو یہ بھی خوش فہمی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اندرشائد کوئی امتیازی کشش ہے کہ دیگر جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی کے لوگ ان کی جماعت دھڑا دھڑ جوائین کر رہے ہیں۔یہ بات ایکسپوز ہوچکی ہے کہ درحقیقت تحریک انصاف میں کشش کا کوئی چکر نہیں ہے بلکہ لودھراں میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہونے سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کا ٹائی ٹینک ڈوب رہا ہے ، بس یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے لوگ ڈوبتے ہوئے ٹائی ٹینک سے چھلانگیں لگا رہے ہیں،اور تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو بغیر کسی پوچھ گچھ اور سکروٹنی کے ہر کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہہ رہی ہے۔ اسی لیے وفاداریاں بدلنے والے ہر بھگوڑے کی منزل تحریک انصاف ٹھہرتی ہے۔اس صورتحال میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف میںدوسری جماعتوں سے آنے والے رہنمائوں کی واضح اکثریت ہے جبکہ تحریک انصاف کے ''حقیقی'' رہنماء آٹے میں نمک کے برابر بھیباقی نہیں رہے ہیں۔اب اگر باہر سے آنے والے یہ تمام رہنماء چاہیں تو''مائنس ون فارمولا'' کے تحت متحد ہو کر پاکستان تحریک انصاف کوکسی بھی وقت ہائی جیک کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی تحریک انصاف کی حقیقی قیادت کے لیے کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں کہ دوسری جماعتوں سے آنے والے اکثر رہنماء مبینہ طور پر اب بھی اپنے سابقہ پارٹی رہنمائوں،آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن وغیرہ سے رابطے میں ہیں اور ان سے ''ہدایات'' لے رہے ہیں۔یہی وجوہات ہیں کہ تحریک انصاف کے نظریاتی رہنماء اور کارکن شدید ذہنی اذیت سے دوچار ہیں اور دوسری جماعتوں سے آنے والے ان لوگوںسے شدید بد ظن ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کا اجتماعی شعور کسی صورت ان لوگوں پر اعتماد کرنے اوران کی وفاداریوں پر یقین کرنے کو تیار نہیںہے۔ تحریک انصاف کے اندر پھیلی یہ بد دلی اور بد اعتمادی ہی درحقیقت تحریک انصاف کی پے در پے ناکامیوں کی بنیادی وجہ ہے۔ جس کا تدارک نہ کیا گیا تو بہت جلد شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف میںکچھ زیادہ فرق نہیں رہے گا !!
٭٭٭٭