سردار خالد ابراہیم کا سچ
ممتاز سیاست دان سردارخالد ابراہیم خان نے 05فروری کو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج یہاں اسمبلی میں ایسے لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں جو شیخ مجیب الرحمان کو محب وطن سمجھتے ہیں ۔ اور یہاں وہ لوگ بھی موجود ہیں جو قائد اعظم کے ویژن پر یقین رکھتے ہیں ۔ جو سردار محمد ابراہیم خان کی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں ، جو سردار عبدالقیوم اور کے ایچ خورشید کی کاوشوں پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان آپ اور ہم جس اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں اس کا ایک پس منظر ہے ۔پاکستان بننے سے پہلے 19جولائی 1947کو سردار محمد ابراہیم خان کے گھر پر الحاق پاکستان کی قرارداد منظورہوئی ۔ اُن کی قیادت میں چلنے والی تحریک آزادی سے ساڑھے چار ہزار مربع میل کا یہ خطہ آزاد ہوا ،اور ساتھ ہی 28ہزار مربع میل پر مشتمل گلگت بلتستان کا خطہ بھی آزاد ہوا۔۔سردار محمد ابراہیم خان نے یو این او میں کشمیریوں کی نمائندگی کی اور وہاں دنیا کو بتایا کہ میں نے کشمیر کی آزادی کے لئے بیس ہزار کی فوج کھڑی کر رکھی ہے ۔ مزید بیس ہزار کی فوج کھڑی کر رہا ہوں جس میںقبائلی بھی ہیں، امریکہ اور فن لینڈ کے لوگ بھی شامل ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمان محب وطن تھا جبکہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کہتے ہیں کہ میں الحاق پاکستان کے لئے سوچوں گا کیا وہ شیخ مجیب الرحمان کے پاکستان سے الحاق پسند کریں گے۔۔۔؟ حلانکہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ شیخ مجیب الرحمان نے 1948میںہی بنگلا دیش کی بنیاد رکھ دی تھی۔تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے یہاں سے ڈوگرہ کو مار بھگایا تھا۔یہاں شیخ مجیب الرحمان کے پیروکاروں کو کس بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔سردار خالد ابراہیم نے 05فروری کو جب پوری قوم کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منا رہی تھی آزاد کشمیر اسمبلی سے جس میں وزیر اعظم پاکستان بھی موجود تھے سے تاریخ ساز خطاب کیا۔ جبکہ اسمبلی سے باہر نا اہل وزیر اعظم نواز شریف مظفرآباد میں جلسہ سے خطاب کر رہے تھے جس میں وہ کشمیریوں کے بجائے اپنے اپ سے اظہار یکجہتی کر رہے تھے ۔ مودی اور بھارتی مظالم کی مزمت کرنے کے بجائے مجھے کیوں نکالا کا رونا رو رہے تھے ۔ وہ راجہ فاروق حیدر سے اپنے لئے آزاد کشمیر میں کوئی کام کاج کے لئے مطالبہ کر رہے تھے ۔سرادر خالد ابراہیم اپنے حق ،سچ اور بے باقی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کشمیر یوں کی بڑی تعداد انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ جس جرات و بہادری سے انہوں نے کلمہ حق بیان کیا اُس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی دھواں دار تقریر پر اپوزیشن نے انہیں دل کھول کر دا ددی ۔ جونہی سوشل میڈیا پر سردار خالد ابراہیم کی ویڈیو وائرل ہوئی پوری دنیا میں ہل چل مچ گئی ۔ اپنوں اور غیروں سب نے سردار خالد ابراہیم کی بے باقی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔سوشل میڈیا پر جس طرح سردار خالد ابراہیم کی تقریر کی چرچے ہوئے اُس کی مثال بہت کم ملتی ہے ۔ آزاد کشمیر کی سیاسی لیڈرشپ میں یہ چیز پائی جاتی ہے کہ وہ دو ٹوک بات کرنے کے بجائے حالات و واقعات اور پسند و ناپسند کی بنیاد پر بات کرتے ہیں ۔جبکہ سردار خالد نے ہر فورم پر کشمیریوں کی بیباک ترجمانی کی ۔ خواہ جنرل مشرف ہوں یا کوئی اور سب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر صرف خالد ابراہیم کو ہی آتاہے ۔جب بولتے ہیں تو اسمبلی کے اندر سقوط تاری ہو جاتاہے ۔ تمام ممبران اور وزیر اعظم پاکستان نے ان کی گفتگو توجہ سے سنی ۔ راجہ فاروق حیدر نے سردار خالد ابراہیم کے جواب میں گول مول بات کرنے کی کوشش کی لیکن وزیر اعظم پاکستا ن نے سردار خالد ابراہیم کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اُن تین لیڈرز کا ہی نام لیا جس کا ذکر سردار خالد ابراہیم اپنی گفتگو میں کر چکے تھے۔بدقسمتی سے آزاد کشمیر میں برسراقتدار احکمران پاکستان کی قیادت کی تقلید میں اتنے اندھے ہوجاتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے موقف کے برعکس طرز عمل اختیار کرتے ہیں ۔تاکہ پاکستان کے حکمران اُن سے خوش رہیں ۔بر حال قوم کو چاہیے کہ وہ سردار خالد ابراہیم کی اس بیباک ترجمانی پر اُن کا ساتھ دیں ۔ روائتی اور موسمی لیڈروں سے دور رہیں جو ضرورت کے مطابق اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں ۔