افغانستان میں امریکی ناکامی کے سیاسی عوامل

شورش زدہ افغانستان کے حالات تمام تر کوششوں کے باوجود بہتر نہیں ہو رہے اور 2018کو اس ملک کی سلامتی اور سیکورٹی کے حوالے سے تجزیہ کار کافی خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ سال 2002کے دوران جب امریکہ اور نیٹو کی ایک لاکھ سے زائد فورسز افغانستان میں داخل ہوئیں تو طالبان نے ایک حکمتِ عملی کے تحت پسپائی اختیار کی کیونکہ ہر گوریلا گروپ کی یہی حکمتِ عملی ہوتی ہے کہ ریاستی کارروائیوں سے بچنے کے لئے وقتی طور پر پسپا ہو کر مناسب وقت کا انتظار کیا جائے اس حکمتِ عملی کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنی کامیابی اور طالبان کی مکمل شکست سے تعبیر کیا۔ اس دوران امریکہ نے تعمیرِ نو اور سیاسی استحکام کی جانب توجہ نہیں دی جس کی ضرورت تھی اور وہی غلطی دوبارہ دہرائی گئی جو 1988کے دوران سوویت یونین کی واپسی کے بعد اپنائی گئی تھی۔ دوسری غلطی یہ کی گئی کہ جو طالبان سال2003-4کے دوران بوجوہ جنگ کے بجائے سیاسی عمل کا حصہ بننا چاہ رہے تھے ان کو اس عمل کا حصہ بننے نہیں دیا گیا اور حامد کرزئی کی خواہش کے برعکس ایسے طالبان کو وقتا فوقتا دیوار سے لگانے کی پالیسی اپنائی گئی۔ ایک اور غلطی یہ کی گئی کہ افغانستان کی پشتون اکثریت کو ریاستی سیٹ اپ سے باہر رکھا گیا اور ریاستی شیئرز کے تعین میں55فیصد آبادی رکھنے والے پشتونوں کو محض 35فیصد پر ٹرخایا گیا۔ اس کے مقابلے میں اقلیتی قومیتوں کو نہ صرف اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا بلکہ ایک منصوبے کے تحت نسلی منافرت کو کم کرنے کے بجائے مزید ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔ اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ پشتون مایوسی کا شکار ہونے لگے اور ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جان بوجھ کر ان کو ریاستی فیصلوںاور اداروں سے باہر رکھنا چاہ رہے ہیں۔ ردِ عمل میںپشتون آبادی نے طالبان کی پسِ پردہ معاونت شروع کی اور جو طالبان امریکی بمباری اور کارروائی سے پہاڑوں پر چڑھ گئے تھے ان کو واپس آنے کے لئے درکار ٹھکانے میسر آگئے۔ سال2005-6کے دوران سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم نے تمام پشتونوںکو طالبان یا ان کے حامی سمجھ کر ڈیل کیا اور ان عناصر کی سرپرستی کی جن کے ساتھ پشتون آبادی کی کشیدگی چل رہی تھی۔ ہم سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے پاکستان کے کردار کو نظر انداز کیا اور طالبان کی حمایت کی آڑ میں ہم نے اس کو شک کی نگاہ سے دیکھا حالانکہ طالبان کو اقتدار دلانے میں بنیادی کردار ہمارا تھا اور پاکستان نے اس کام میں ہماری معاونت کی تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم ہی نے پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کا آغاز کیا تو غلط نہیں ہوگا۔
دیگر امریکی حکام کے بیانات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ امریکہ نے ابتداء میں نئی حکومت کے قیام اور کانٹر ٹیررازم سٹریٹجی میںبہت سی غلطیاں کیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سال2004-5کے دوران طالبان نے دوبارہ اپنی سرگرمیوں اور کارروائیوں کا آغاز کیا اور حالات پھر سے خراب ہونے لگے۔ امریکہ کے پاس مزاحمت کاروں کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کا یا تو سرے سے کوئی پلان تھا ہی نہیں یا وہ جان بوجھ کر ایک غلط حکمت پر عمل پیرا تھے۔ دوسری طرف ان وارلارڈز کو غیر ضروری اختیارات اور کلیدی عہدے دے دیئے جو کہ نظریاتی طور پر روس اور ایران کے قریب تھے اور انہوںنے پسِ پردہ رہ کر ان کو اس کے باوجود اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا کہ اب وہ بوجوہ امریکہ کے قائم کردہ نئے سیٹ اپ کا حصہ تھے۔ دو تین سال تک حامد کرزئی ان وارلارڈز کے رحم وکرم پر رہے کیونکہ کرزئی کے پاس کوئی منظم فورس یا سیاسی طاقت نہیں تھی تاہم ان کی تجاویز اور فیصلوںپر عمل کرنے کے بجائے امریکہ نے ان عناصر پر زیادہ انحصار کیا جو کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ان پشتونوں کی نسل کشی میں کھلے عام ملوث رہے تھے جن کا عملا طالبان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ طالبان کے جبر کا نشانہ بنے تھے۔ دوسری طرف یورپی ممالک اور امریکہ کے درمیان بھی بعض معاملات پر ہم آہنگی کا فقدان رہا جبکہ تعمیرِ نو کے کام کی رفتار سست رہی، طالبان کے خلاف کارروائیوں میں بداحتیاطی کا مظاہرہ کیا گیا اور متعدد بار سکولوں، جنازوں اور شادی کی تقریبات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طرزِ عمل نے افغان عوام کو نہ صرف مایوس کیا بلکہ وہ مجبوراکئی بار مزاحمت پر بھی اتر آئے اور یہی وجہ ہے کہ جب دوسرے دورانیے کے دوران صدر بارک اوبامہ نے واشنگٹن میں ایک ملاقات کے دوران حامد کرزئی سے ڈیلیور نہ کرنے کی شکایت کی تو کرزئی نے ان حملوں کی تحریری تفصیلات ان کے سامنے رکھ دیں جن کے دوران امریکیوں نے عام افغانوں اور ایسے اجتماعات کو نشانہ بنایا تھا اورموقف اپنایا کہ امریکہ کی فورسز اتنے وسائل کے باوجود طالبان کی آڑ میں عام شہریوں کو نشانہ بناکر ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ امریکی فورسز نے افغان روایات کے بالکل برعکس سرچ آپریشنز کے دوران دوسروں کے علاوہ خواتین اور گھروں کی تلاشیاں لے کر عوام کو مسلسل اذیت اور اشتعال کی کیفیت سے دوچار کئے رکھا۔ جبکہ بوڑھوں اور بچوں کو بھی ایسے ہی رویوں کا سامنا کرنا پڑا اس طرزِ عمل نے وہی نتائج دیئے جو کہ 80کی دہائی میں افغانستان کے انقلاب ثور نے دیئے تھے۔1979میں جب سردار محمد داد کا تختہ الٹ کر کمیونسٹوں نے کابل پرقبضہ کیا تو انہوںنے جہاں ایک طرف محض ایک مہینے میں35ہزار لوگوں کو تشدد اورگولیوں کانشانہ بنا کر ہلاک کیا وہاں انہوں نے عام شہریوں کو ہراساں کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے جس کے ردِعمل میں جہاں ایک طرف ہزاروں لوگ عزت اور جان بچانے کے لئے ہجرت کر گئے، وہاں اسلامسٹ فورسز یا گروپوں کو مزاحمت کا موقع بھی ہاتھ آگیا اورعوام ان کے ساتھ رابطے اور تعاون کرنے لگے۔ بعد میں جب روسی افغانستان میںداخل ہوگئے تو انہوں نے بھی وہی طرزِ عمل اپنایا اور نتیجے کے طور پر لاکھوں افغانی نہ صرف پاکستان اور ایران کا رخ کرنے لگے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مجاہدین کی صفوں میںشامل ہو کر مزاحمت پر اتر آئے اور یوں نظریاتی معاملات نے باقاعدہ خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی۔ امریکیوں اور ان کے شمالی اتحادیوں نے بھی وہی طرزِ عمل اپنایا اور اس کا طالبان نے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ حامد کرزئی کے لمبے عرصہ اقتدار کے دوران ان کی اور امریکیوں کی باہمی چپقلش مسلسل برقرار رہی اور امریکی ان کی تجاویز کو نظرانداز کرتے رہے۔ سال 2013کے دوران جب ڈاکٹر اشرف غنی کو افغان عوام نے منتخب کیا تو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے نتائج ماننے سے انکار کرتے ہوئے یہاں تک دھمکی دی کہ اگر ان کو اقتدار کا حصہ نہیں بنایاگیا تو افغانستان تقسیم ہو جائے گا اور مختلف علاقوں اور قومیتوں کے درمیان خانہ جنگی بڑھ جائے گی۔
 اس مزاحمت کے نتیجے میں تقریبا نصف برس تک نئی حکومت کی تشکیل نہ ہو سکی اورریاستی ادارے غیرفعال رہے۔ اس طرزِ عمل نے بھی طالبان کو آگے بڑھنے کے بہترین مواقع فراہم کئے اور وہ شہروں کے دروازوں پر پہنچ کر نئے ٹھکانے ڈھونڈنے لگے۔ اس دوران جب امریکی فورسز کی تعداد کم کی گئی تو پاکستان سمیت بعض اہم افغان لیڈروں نے اس فیصلے کو خطرناک قرار دے دیا مگر امریکی اس اقدام کو درست قرار دیتے رہے۔ اس فیصلے نے بھی طالبان کے کام کو آسان بنا دیا اور وہ متعدد صوبوں میں پھیلنا شروع ہوگئے۔ غنی اور عبداللہ کی باہمی کشیدگی نے جہاں طالبان کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کئے وہاں نسلی اختلافات میںمزید اضافہ ہونے لگا اور وہی صورت حال پھر سے بننی شروع ہوگئی جو کہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بن گئی تھی۔ حکومت کی تشکیل میں بعض یورپی ممالک کے علاوہ بعض اسلامی ممالک عبداللہ عبداللہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور یوں اشرف غنی کو بے اختیار بنانے کی راہ ہموار ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادارے دو متضادالخیال گروپوں میںتقسیم ہونے کے باعث تصادم کی راہ پر چلنے لگے اور ریاستی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہونے لگا۔ اس صورت حال نے اشرف غنی کو کافی پریشان کیا اور ان کو وہ وقت بھی دیکھنا پڑا جب غیر ملکی دوروں کے دوران افغانستان کی نمائندگی بیک وقت دو لیڈر کرنے لگے۔ امریکیوں نے اس تمام عرصے کے دوران افغان طالبان کے ساتھ افغان حکومت کے رابطوں اور مفاہمتی کوششوں کو کسی بھی سطح پر کامیاب ہونے نہیں دیا جبکہ پاکستان کی ہر مفاہمتی کوشش کو بھی ناکام بنایا جس کی مثالی مری مذاکرات کے دوان ملا عمر کی موت کی خبر لیک کرنا اور دوسرے مرحلے کے دوران دوسرے طالبان امیر ملا اختر منصور کو ڈرون حملے کا نشانہ بنانا تھا۔ نئی امریکی حکومت کے پاس ابتدامیں سرے سے افغان پالیسی تھی ہی نہیں۔ تاہم چند ماہ قبل ایک پالیسی کا اعلان کیا گیا تو وہ زمینی حقائق اور خطے کے حالات کے بالکل برعکس تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صورتحال مزید خراب ہونے لگی اور افغانستان میں حملوں کی تعداد خطرناک شکل اختیار کر گئی۔ اس دوران امریکہ پر داعش جبکہ روس اور ایران پر طالبان کی سرپرستی کے الزامات لگنے شروع ہوگئے۔ جبکہ مسلسل الزامات نے پاکستان کو بھی مجوزہ مفاہمتی عمل سے ہاتھ کھینچنے پر مجبور کیا۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ افغانستان مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے اور خدشہ ہے کہ صورت حال میں بوجوہ مزید ابتری واقع ہوگی۔