معذور ہیں مجبور نہیں

بعض لوگ ہمارے لیے مشغل ِ راہ ہوتے ہیں وہ اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیتے بلکہ اس سے مقابل کر کے زندگی کی بہار سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا کبھی بھی نہ تو پسند کرتے ہیں نہ ہی خود داری پت آنچ آنے دیتے ہیں ایسے لوگ ہماری ہمدردی توجہ کے متقاضی ہوتے ہیںایسے ہی افراد میںراجہ ذاکراور معذور ہونے کے باوجود محنت پر یقین رکھتے ہیں اوردھیرکوٹ میں اخبار فروخت کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہیں یہ مثال ان کے لیے ہے جو اچھے خاصے صحت مند ہو کر بھی ہاتھ پھیلا کر خودی کو فروخت کرتے ہیں ہمیں بھی معذور افراد کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ پاکستان کی آبادی تقریباً 20کروڑ 77لاکھ 74ہزار 520ہو چکی ہے جن میں دیہی علاقوں میں 13کروڑ 21لاکھ 89ہزار 532 جبکہ شہری آبادی 7کروڑ 55لاکھ 84ہزار 989ہے  جس میں مرد حضرات کی تعداد 10کروڑ 64لاکھ  49ہزار322 جب کہ خواتین کی تعداد 10کروڑ 13لاکھ14ہزار 780ہے  گزشتہ 19برسوں میں آبادی میں اضافہ 4.2%رہا اس مجموعی آبادی میں 15%حصہ معذور افراد کا ہے جو کسی نہ کسی اعتبار سے معذوری کا شکار ہیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جاری شدہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ترقی پذیر ممالک میں آبادی کا 10%حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے جب کہ پاکستان میں 15%ہے جن کی تفصیل یوں ہے کہ 8.6%نابینا 7.43فیصد گونگے بہرے  18.93%لنگڑاہٹ  7.60%پاگل پن کا شکار  43.37%کسی اور معذوری کا شکارہیں  اگرکُل آبادی و معذوروں کا تناسب نکلا جائے تو پنجاب پہلے نمبر پر ہے جہاں 20لاکھ سے زائد افراد معذوری کی زندگی گزار رہے ان میں 8.48نابینا  8.17گونگے بہرے 20.83لنگڑاہٹ 7.87پاگل پن 39.84دیگر معذوری میں مبتلا جب کہ 8.7افراد ایسے بھی ہیں جو ایک سے زائد معذوری کا سامنا ہے 1998کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی کا 2.49فیصد معذورافراد پر مشتمل تھا جس میں صوبہ پنجاپ میں 55.7% 28.4صوبہ سندھ 11.1کے پی کے 4.5صوبہ بلوچستان اور 0.3اسلام آباد میں موجود تھے جب کہ اس میں 10سے 15فیصد اضافہ ہوا  2012میں معذور افراد کی جامع بحالی کے لیے منعقدہ کانفرنس کے مطابق وطن میں معذور افراد کی تعداد اس وقت 50  لاکھ تھی  جب کہ عالمی ادارہ برائے صحت (WHO)کے مطابق ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے ان میں معذور افراد کی تعداد 10-15فیصد تک بڑھ چکی  ترقی یافتہ ممالک میں تو معذور افراد کے لیے غیر امتیازی قوانین Anti discrimination Lawsموجود ہیں معذور افراد کی بحالی اور ان کی احساس کمتری  سے باہر لاکر مفید شہری بنانے کے لیے تعلیم صحت  ٹرانسپورٹ  روز گار  ملازمتوں میں کوٹہ  اور جدید سہولیات ناگزیر ہی ہے حکومت نے معذور افراد کے لیے ملازمتوں میں 02%کوٹہ مقرر کر رکھا ہے اس پر بھی عمل درآمد نہ ہونے کے باعث معذور افراد ذہنی اذیت کا شکار ہیں اسی حوالہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2017میںحکم دیا تھا کہ مردی شماری میں معذور افراد کو شامل کرنے کے حوالہ سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر عمل کیا جائے  انہیں ہم ''سپیشل افراد '' کہتے تو ہیں لیکن ان کے ساتھ کیا سلوک بھی ویسا ہی ہوتا ہے  21صدی جب دنیا گلوبل ویلج بن چکی  ہمیں معذور افراد کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گاورنہ کئی معذور افراد زندگی کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے گداگری کارخ کر لیتے ہیں جس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کہیں معذور افراد کی خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے جو انسانیت کو شرمندہ کرنے کے مترادف ہے  حالانکہ معذور افراد میں عام انسانوں سے کئی گنا زیادہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں ان میں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ بھی زیادہ موجزن ہوتا ہے  اقوام متحدہ کے کنونشن برائے معذور افراد کے مطابق معذوری کی بنیاد پر کسی بھی فرد سے امتیازی سلوک انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے ہم من حاصل مسلمان قوم یہ لوگ ہمارا اثاثہ ہیں ان سے زیادتی کی کوئی گنجائش موجود نہیں  معذور افراد کو بہترین سہولیات فراہم کی جانی ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ان معذور افراد کو بھی جدید سہولیات صحت  ملازمتوں میں کوٹہ  وہیل چیئر کی فراہمی  مردم شماری میں نام کی شمولیت دی جائیں تاکہ انہیں اس کے لیے Do count usکی آواز نہ بلند کرنا پڑے ۔