یورپ ایشیا رابطہ سازی ۔ عالمی چیلنجز کا مشترکہ سامنا
جب تیرہویں صدی کا مشہوراطالوی سیاح مارکو پولو ایشیا میں چوبیس سال سیاحت کے بعد اپنے وطن وینس لوٹا تو نہ صرف وہ مصالحے اور نقشہ سازی کا فن ساتھ لایا بلکہ ایک نئی دنیا کے تصور کا موجد بھی بن گیا۔ اسکی کتاب۔ Travelsنے دو دنیائوں کے باہم رابطے، تعلق اور ایک دوسرے سے مستفید ہونے کے امکان کے نئے اور اچھوتے تصور کی بنیاد رکھی۔ تب سے یہ تصور مفکروں اور تاجروں کے ذہن میں جا گزیں رہا ہے اور دو بر اعظموں کے مابین باہمی مفاد پر مبنی تعلقات کو فروغ دیتا رہا ہے۔
اسی تاریخی اور با کمال روایت کو مضبوط کرنے کیلئے یورپی یونین یورپ اور ایشیا کے درمیان رابطہ کاری کیلئے اپنی حکمتِ عملی کو تکمیل دے رہا ہے اور اکتوبر میں برسلز میں بارہویں ایشیا یورپ میٹنگ سمٹ (ASEM)بھی منعقد کروا رہا ہے۔ اس میٹنگ کا مرکزی خیال''یورپ اور ایشیا: عالمی چیلنجز کیلئے عالمی شریکِ کار''ہے اور اس کا مقصد دونوں خِِطوں کے بیچ تعاون اور ڈائیلاگ کو فروغ دینا اور ایک وسیع دائرہِ کار میں مشترکہ کارروائی ہے۔ اس دائرہِ کار میں سکیورٹی، تجارت اور سرمایہ کاری، رابطہ سازی، دیرپا ترقی اور ماحولیاتی سرگرمیاں شامل ہیں۔یورپ کے باہمی انضمام کی بنیاد رابطہ سازی پر رہی ہے اور یہی ہمارے استحکام اور خوشحالی کی جڑ بھی ہے جس سے پوری دنیا فیضیاب ہو رہی ہے۔ یورپی ریاستیں اپنے وسائل کے اشتمال اور آپس میں بھرپور تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے ہی جنگوں اور غربت پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکیں۔اسی جذبے کے تحت ہم اپنے ایشیائی پارٹنرز کے دوطرفہ تعلقات کے قیام کیلئے اپنے تجربات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے عوام، ہمارے معاشروں اور ہماری منڈیوں کے باہمی مفاد میں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری اس کوشش میں پاکستان کا تعاون ہمارے لئے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے جس کی وجہ پاکستان کے محل وقوع کی جیو سٹرٹیجک اہمیت، یہاں کی آبادی اور اسکی ترقی کی رفتار ہے۔ پاکستان اور یورپی یونین کی درمیان یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں خطے کے استحکام اور معاشی ترقی کیلئے علاقائی معاشی انضمام اور رابطہ سازی کے ذریعے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ دونوں اکائیاں یورپ اور ایشیا کے مابین مضبوط تر رابطوں کے ممکنہ فوائد پر متفق ہیں۔ بین الاقوامی معیشت میں تعاون اور ایک دیرپا معاشی ترقی کے ہمارے عزم کے اعادے کی ایک صورت ہمارا پاکستان کے ساتھ ترجیحی تجارتی معاہدہ۔ +GSPبھی ہے جسکے تحت پاکستانی مصنوعات کو یورپی منڈیوں میں بہتر رسائی حاصل ہو رہی ہے۔ایشیا اور یورپ کے درمیان رابطہ سازی کے متعلق یورپی یونین کا طریقہ کار اشتمالی اور دور رس ہے۔ اس میں رابطے اور نقل و حمل کے تمام ذرائع کے علاوہ انٹرنیٹ اور توانائی بھی شامل ہے تاکہ مادی نیٹ ورکس اور ادارتی ضابطہِ عمل سے باہمی استفادہ کے ذریعے تعلیم و تحقیق، جدت اور ترقی، ثقافت اور سیاحت کے شعبہ جات کو ترقی دی جا سکے۔اگرچہ آج کے دور میں رابطے قائم نہ رکھنے کا تصور بھی نا ممکن ہے، لیکن دنیا ایک انتہائی تیز رفتار کے ساتھ ترقی بھی کر رہی ہے اور زیادہ پیچیدہ بھی ہوتی جارہی ہے۔ اب اسکے علاوہ کوئی صورت نہیں کہ ہم ان دونوں طرح کی تبدیلیوں کے مطابق خود کو بھی بدلیں اور ان غیر متوقع تبدیلیوں کیلئے خود کو تیار بھی رکھیں۔ باہمی رابطہ سازی کی یہ کوششیں ہمارے عوام کے حقوق اور دنیا کی ماحولیاتی صحت سے بالا تر نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے اس ضمن میں یورپی یونین کی کاوشیں دیرپا ترقی، مزدور کے احترام، سماجی اور ماحولیاتی قوانین اور شفافیت کو بھی مدِ نظر رکھتی ہیں۔ رابطہ سازی کبھی بھی یک طرفہ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ یک طرفہ مفاد کا تصور ہے۔ اگر نئی دنیا میں باہمی تعلقات کی بنیاد تعاون پر ہے، تو یہ بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی اقدار کی حفاظت اور ترویج کو بھی بنیادی حیثیت دی جائے۔
یورپی یونین اپنے بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ انہی بین الاقوامی طور پر متفقہ اصولوں کی بنیاد پر تعاون چاہتی ہے۔ یورپ اور ایشیا کی رابطہ سازی کا پہلا نتیجہ بہتر طرزِِ حکومت ہونا چاہئیے تاکہ ہماری منڈیوں کے باہمی تعلق کے ثمرات ہمارے عوام تک پہنچ سکیں۔ اسی لئے ہم شفافیت، یکساں سلوک اور مساوی رسائی کے ساتھ تجارتی اصولوں کے احترام کو ترویج دینا چاہتے ہیں جو کہ باہمی مفاد کی بنیادی شرط ہے۔
ہمیں مل کر ان بہت سے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت بھی ہے جو اس رابطہ سازی اور اشتمالی طرزِ عمل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ دیرپا ترقی کو تجارت کے ذریعے تقویت دینے کیلئے صحیح نظام کا ہونا ضروری ہے۔ اس میں شاہراہوں اور بندرگاہوں پر مشتمل مادی نظام بھی شامل ہے، اداروں اور قوانین پر مشتمل غیر مادی نظام بھی شامل ہے جو تمام شراکت داروں کو اس کاروبار تک رسائی فراہم کر سکے، اور ایسا ڈیجیٹل نظام بھی شامل ہے جو لوگوں کو کم خرچ میں عالمی منڈیوں سے منسلک کر سکے۔ اس لائحہ عمل میں رابطے کے معاشی نظام کو تقویت دینے کی ضرورت بھی ہے جس کیلئے ہمہ جہتی ترقی اور انویسٹمنٹ بینکنگ کے شعبوں میں تعاون ضروری ہے۔
رابطے بڑھانے کی اس کوشش میں یورپی یونین کی یہ خواہش بھی بہت اہم ہے کہ یہ ترقی ہر سطح پر دیرپا ہو۔ اس میں نہ صرف معاشی پہلو شامل ہے بلکہ ماحولیات پہلو بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیاں مستقبل میں ہمارے رابطوں کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم باہمی تجارت اور تبادلوں کیلئے توانائی کے دیرپا ذرائع اور نقل وحمل کے جدید اور ماحول دوست طریقے اختیار کریں۔ وہ دور گزر گیا جب صرف معدنی توانائی پر انحصار کیا جا سکتا تھا اور یورپی یونین یہ چاہتی ہے کہ پاکستان بھی توانائی کے نئے اور ماحول دوست ذرائع کی طرف توجہ دے۔ ہم اس شعبے میں بھی تعاون جاری رکھیں گے۔ اس تعاون کا مقصد نہایت اعلی ہے جو کہ ہمارے معاشروں اور ہمارے عوام کو ایک دوسرے کے قریب تر لانا ہے۔