آپریشن بلیو اسٹار ناگزیر نہیں تھا

اندرا گاندھی نے سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل(یادربار صاحب امرتسر)میں پناہ لینے والے سکھ عسکریت پسندوں کے خلاف خون آشام فوجی کارروائی آپریشن بلیو اسٹار کے نام سے کی تھی جس میں سیکڑوں سکھ مارے گئے تھے۔ اب لندن میں مقیم سکھ کمیونٹی نے حکومت برطانیہ سے درخواست کی ہے کہ آپریشن بلیواسٹار کے حوالے سے تمام سرکاری دستاویزات کو عوام کے لیے عام کر دیا جائے مگر حکومت برطانیہ نے سکھوں کی یہ اپیل مسترد کر دی ہے۔بھارتی حکومت نے سکھوں کے خلاف یہ فوجی کارروائی یکم جون سے 8جون 1984 کے درمیان کی تھی جس میں سکھوں کے عسکریت پسند مذہبی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ہر مندر صاحب کمپلیکس میں بھنڈرانوالہ کے بہت سے ساتھی لقمہ اجل بن گئے تھے۔اس زمانے میں مسز مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی وزیراعظم تھیں جن کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے بہت قربت تھی اور اندرا نے دربار صاحب پر فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کے لیے تھیچر سے صلاح مشورہ کیا تھا۔ اب اس بات کا پتہ چلا ہے کہ ایک برطانوی افسر امرتسر تک گیا تھا جہاں اس نے گولڈن ٹیمپل میں پناہ لینے والے سکھ عسکریت پسندوں کے بارے میں بھارتی فوج سے تمام معلومات حاصل کیں۔بھارتی فوج نے بعدازاں گولڈن ٹیمپل پر حملہ کیا لیکن اب اس بات کو محسوس کیا گیا ہے کہ سکھوں کے خلاف اتنے سخت آپریشن کی ضرورت نہیں تھی اور یہ کہ اکال تخت کو کسی اور طریقے سے بھی گولڈن ٹیمپل کے اندر سے باہر نکالا جا سکتا تھا۔ اب اس واقعے کو 34سال بیت چکے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو آگاہی نہیں ہو سکی کہ اس فوجی کارروائی کی اصل وجہ کیا تھی۔ سکھوں کی اس متبرک عبادت گاہ پر فوجی کارروائی نے سکھوں کو سخت ناراض کر دیا۔ اس فوجی کارروائی میں ٹینک بھی استعمال کیے گئے تھے۔مجھے یاد ہے کہ وزیراعظم اندرا گاندھی آدھی رات کے وقت نیند سے جاگ پڑی تھیں کیونکہ گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کرنے والے بھارتی فوج کے ہراول دستے بھنڈرانوالہ کے پیروکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ آج بھی ہر مندر صاحب کی دیواروں پر گولیوں کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام نے لبرل سکھوں کو بھی ناراض کر دیا جو گولڈن ٹیمپل کو ویٹی کن کی طرح مقدس خیال کرتے ہیں۔ برطانوی حکومت کے پاس وہ تمام معلومات ہیں جن کی بنا پر بھارتی فوج ہرمندر صاحب میں داخل ہوئی۔سکھ وار لارڈز کے خلاف فوجی کارروائی کرنا ضروری خیال کیا گیا کیونکہ ان میں دہشت گرد بھی شامل ہوگئے تھے۔ فوجی کارروائی کے نتیجے میں بہت سے سکھوں نے بھارتی فوج سے استعفے دیدئے بلکہ بعض سکھوں نے تو وہ اعزازات بھی واپس کردیے جو حکومت نے ان کی شاندار کارکردگی کی بنا پر عطا کیے تھے۔ مسز اندرا گاندھی کو پورا احساس تھا کہ فوجی کارروائی کے جواب میں سکھ شدید ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ اندرا نے بھونیشور میں ایک جلسہ عام میں اعلان کیا کہ اسے لگتا ہے کہ اسے سکھ جان سے مار دیں گے لیکن حکومت کی ذمے داریاں انھیں مجبور کرتی ہیں کہ وہ سکھوں کے خلاف کارروائی کریں۔اندرا کا یہ ڈر چار مہینے کے بعد حقیقت بن گیا اور ان کے سکھ سیکیورٹی گارڈز نے انھیں قتل کر دیا۔ سکھوں کا غصہ صرف اندرا کے قتل پر ٹھنڈا نہیں ہوا۔ صرف دہلی میں 3000 سے زائد سکھوں کو قتل کر دیا گیا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اندرکمار گجرال وزیراعظم بن گئے اور ان کی ٹیم میں جنرل جگجیت سنگھ اروڑا اور ایئرمارشل ارجن سنگھ بھی شامل تھے جب کہ خود مجھے بھی اس ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا۔ہماری تحقیقات سے یہ ظاہر ہوا کہ فوجی کارروائی ناگزیر نہیں تھی اور بھنڈرانوالہ پر کسی اور طریقے سے بھی قابو پایا جا سکتا تھا۔ یہ بات ہم نے پنجابی گروپ کے روبرو اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہی۔ کیونکہ ہمیں سکھوں کے خلاف فسادات کی تحقیقات کرنے کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔پی وی نرسیما را اس وقت وزیر داخلہ تھے۔ ہماری ٹیم نے ان سے ملاقات کی اور سرکاری ایکشن کے ردعمل پر تبادلہ خیال کیا۔ سب نے ایک ہی بات کی کہ حکومت کی سکھوں کے خلاف کارروائی بلاجواز تھی۔دہلی اور اس کے گردونواح میں سکھوں کے خلاف جو فسادات ہوئے ان پر فی الفور قابو پایا جا سکتا تھا لیکن اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے جان بوجھ کر پولیس یا فوج کو مداخلت کرنے کے لیے نہیں کہا۔ اس نے مبینہ طور پر ریمارک دیا کہ فسادات خود بخود شروع ہوگئے تھے بلکہ راجیو نے یہ بھی کہا کہ جب کوئی بڑا درخت گرتا ہے تو زمین ہل جاتی ہے۔ اب اس واقعے کو تین عشروں سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔جب بھارتی فوج (باقی صفحہ6بقیہ نمبر2)
نے گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کی۔ برطانوی حکومت نے ان خفیہ دستاویزات کو عوام کے لیے کھول دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کو فوجی طاقت کے استعمال کا مشورہ دیا تھا جس کے نتیجے میں نئی دہلی اور لندن کے علاوہ اور بھی کئی جگہوں پر سکھوں کے فسادات شروع ہوگئے۔برطانوی حکومت نے اس انکشاف کے بعد تحقیقات کا حکم بھی جاری کیا جب کہ بی جے پی کی حکومت نے اس حوالے سے وضاحت طلب کرلی ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس آفیسرز جو سکھوں کے خلاف آپریشن میں ملوث تھے نیز وہ فوجی کمانڈر جنہوں نے اس آپریشن بلیو اسٹار کی قیادت کی ان دونوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ انھوں نے اس آپریشن کے لیے برطانوی منصوبے کو استعمال کیا ہے بلکہ انھوں نے دعوی کیا ہے کہ آپریشن کی بھارتی فوج نے ہی منصوبہ بندی کی تھی اور اپنے بل بوتے پر کارروائی کی۔
یوکے کی نیشنل آرکائیو نے 30 سال کے بعد ان دستاویز کو قوم کے لیے کھول دیا ہے جس کے لیے 23فروری 1984 کو سکھ کمیونٹی کے عنوان سے جو کاغذات تیار کیے گئے تھے جن میں کہ بہت سے سرکاری مکتوبات بھی شامل تھے۔
خارجہ سیکریٹری کے دفتر کے ایک افسر نے سیکریٹری داخلہ کے پرائیویٹ سیکریٹری کو بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں سکھوں کی رنجش دور کرنے کے بارے میں کچھ معلومات سے آگاہی ہو۔ بھارتی حکام نے حال ہی میں برطانوی حکومت سے مشورہ طلب کیا کہ انھیں گولڈن ٹیمپل سے انتہا پسند سکھوں کو باہر نکالنے کا کوئی طریقہ بتائے۔ اگر برطانوی حکومت نے مسز اندرا گاندھی کے مطالبے پر اپنی ایک ٹیم بھارت بھیجی اور برطانوی خارجہ سیکریٹری کو یقین ہے کہ بھارتی حکومت برطانیہ کے تیار کردہ منصوبے پر جلد عملدرآمد کرے گی۔
برطانیہ کے سرکاری مکتوب میں یہ بھی لکھا ہے کہ بھارت نے 1984 کی فوجی کارروائی کے حوالے سے برطانوی منصوبے پر قطعا عمل درآمد نہیں کیا۔ لندن میں برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرائے گی کہ برطانوی حکومت اس آپریشن میں کس حد تک ملوث تھی۔
آپریشن بلیو اسٹار کے نتیجے میں بھارت کا بہت بھاری جانی نقصان ہوا۔ لہذا اس وقت کے حالات کے بارے میں جاننے کی خواہش فطری ہے۔ اس کا اعلان برطانوی حکومت کے ایک ترجمان نے کیا۔ لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آپریشن بلیو اسٹار کی دستاویزات کو عوام کے لیے کھول دینا چاہیے کیونکہ وقت گزرنے کے بعد یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ اس فوجی آپریشن کرنے کی شدید ضرورت ہرگز نہیں تھی۔