سفر نامہ: پیام سفیر

تحریر: سفیر اعظم ملک
عقیل اور وقار زمینوں کو پانی دیکر بیٹھے تھے جبکہ فضل داد نے ابھی ابھی پانی کو اپنی زمینوں کی طرف موڑا تھا اور ہانپتا کانپتا انہیں کی طرف آ رہا تھا ۔
ان تینوں کا بچپن سے یارانہ تھا اور انکی آبائی زمینیں شہر سے آنے والی کچی سڑک(جو کہ انہی کے گاؤں کی طرف جاتی تھی ) میں تھیں۔
تینوں بزرگ آپس میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مشغول تھے کہ اسی اثنا میں شہر سے آنے والی سڑک پر انہوں نے ایک تیز رفتار کار کو آتے دیکھا جو کہ شاید انہیں کی طرف آ رہی تھی ۔ ابھی یہ تینوں چہ مگوئیوں میں لگے تھے کہ وہ کار ان کے ڈیرے پر آن رکی ۔اس میں سے ایک باوقار شخصیت کا مالک نوجوان باہر نکلا ۔اس کو دیکھتے ہی عقیل کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں ۔
آخر کیوں نہ کھلتیں اسکا بیٹا ماشااللہ سے انیسویں گریڈ کا سرکاری افسر تھا ۔ جواد بڑی ٹھان کے ساتھ ان تک پہنچا ۔وہ آتے ہی گویا ہوا ۔ ابا جی کیسے ہو اور وقار و فضل داد چاچا آپ کیسے ہو ۔
عقیل نے فوری جواب دیا پتر میں ٹھیک ہیں، تم سناؤ کیسے ہو۔
روحانیہ کیسی ہے اور میرے پوتی پوتا کیسے ہیں ۔
جواد نے کہا ۔جی ابا روحی ٹھیک ہے اور آپکے پوتی پوتا بھی بالکل ٹھیک ہیں ۔
میں ایک ضروری کام سے گاؤں آیا ہوں شام تک واپس چلا جاؤں گا سوچا کہ آپکو ملتا چلوں ۔
پتر خیر تو ہے ابھی تو تم آئے ہو اور آتے ساتھ ہی واپس جانے کی پڑی ہے ۔
جواد ۔۔ وہ ابا آپکو معلوم تو ہے کہ شہر میں روحانیہ اکیلی ہے فیضان اور روبی بھی ابھی بچے ہیں ۔ان کی فکر لگی رہتی ہے لہٰذا شام کو ہر صورت واپس جانا ہے ۔
عقیل .. پتر ان کو بھی ساتھ لے آتے ۔ کتنا عرصہ ہوگیا ان سے ملے ہوئے اب تو خیر ویسے بھی اسکول سے گرمیوں کی چھٹیاں ہیں ۔
جواد ۔۔۔ ابا آپکو تو پتا ہے کہ روحی گاؤں میں رہنا پسند نہیں کرتی ۔
گاؤں کی فضا اس کے موافق نہیں ۔یہاں آ کر وہ بیمار پڑ جاتی ہے اس لئیے اسکو ساتھ نہیں لایا ۔ویسے وہ بھی آپکو بہت یاد کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ابا جی سے کہنا کہ ہم اسپین سے واپس آ لیں تو ایک دو دن کا چکر لگائیے گا اور اپنی پوتی اور پوتے سے مل جائیے گا ۔
عقیل ۔۔۔۔کیا مطلب بیٹا تم لوگ کہیں جا رہے ہو ۔
جواد ۔ جی ابا ۔۔اسلام آباد میں گرمی بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔روحی کب سے کہہ رہی تھی کہ کہیں گھومنے پھرنے کے لئیے یورپ کیطرف چلیں اس لئیے میں نے سوچا بچوں کو بھی چھٹیاں ہیں تو کیوں نا ان کی خواہش کو پورا کر لیا جائے ۔اسی لئیے تو میں گاؤں آیا ہوں کہ آپ کو بتا بھی دوں اور اپنے ضروری ڈاکومنٹس اور پاسپورٹ بھی لے آؤں اور اب میں چلتا ہوں کیوں کہ میں نے واپس بھی جانا ہے۔
عقیل کو ساری کہانی کی سمجھ اب آئی وہ تو سمجھ رہا تھا کہ اسکی اکلوتی اولاد اسکو ملنے آئی ہے ۔
اس نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی بے حد کوشش کی مگر ناکام رہا اور آنسو کا ایک قطرہ اسکی آنکھوں سے بغاوت کر کے گال پر بہہ ہی نکلا ۔
اس نے بیٹے کو دعا دیتے ہوئے کہا ۔۔۔جا بیٹا خدا تیراحامی و ناصر ہو 
جواد جس سپیڈ سے آیا تھا اسی سے واپس چلا گیا اور یوں عقیل اپنے بیٹے کو بتا ہی نہ سکا کہ اسکو کچھ عرصہ سے سینے کی بائیں جانب شدید درد ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔
دانش بیٹا اٹھ بھی جاؤ دیکھو سورج سر پر چڑ آیا ہے ۔ اٹھو بیٹا جا کر ابے کو کھیتوں میں روٹی دے آؤ اس نے آج ناشتہ بھی نہیں کیا ۔ آج پانی کی باری تھی اس لئیے اسکو جلدی جانا پڑا ۔  نحیف سی زرینہ اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی ۔
دانش کو آج چھوتا روز تھا گھر آئے ہوئے ۔وہ روز دن چڑھے اٹھتا ناشتہ زہر مار کر کے ٹی وی پر بیٹھ جاتا یا پھر سارا دن موبائل پر لگا رہتا ۔ زرینہ کو اسکی یہ عادات و اطوار ذرا بھی پسند نہیں تھے مگر وہ بیچاری کیا کر سکتی تھی ۔چار بہنوں کے بعد پیدا ہونے والا دانش ہی تو انکی امیدوں کا واحد آسرا تھا ۔ وہ بس اسکو دیکھتی اور کڑھتی رہتی ۔ اسکو وقار کی وہ ساری امیدیں ڈوبتی نظر آتیں جو وہ اس سے وابستہ کئیے ہوئے تھا ۔لیکن خاموش تھی کہ کہیں وقار یہ صدمہ دل پر ہی نہ لے لے ۔ زرینہ خیالوں کی دنیا سے لوٹی تو ایک دفعہ پھر دانش پھر دانش کو آواز دینے لگی ۔
دانش بدتمیزی سے کہنے لگا کہ ۔۔۔کیا ہے اماں کیوں شور کر رہی ہو ۔جا رہا ہوں ابا کو کھانا دینے اتنی ہی فکر تھی تو کھانا ساتھ بھیج دیا ہوتا ۔دانش کھانے کی پوٹلی اٹھا کر چل دیا ۔
زرینہ کی سانس اکھڑنے لگی اور ایک دفعہ پھر اسکو کھانسی کا دورہ شروع ہو چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جمیل سبق سنا چکا تھا بس اب وہ جلدی جلدی چھٹی ہونے کے انتظار میں تھا ۔ جمیل کا شمار جامعہ کے لائق ترین طلبا میں ہوتا تھا ۔ جمیل بہت پرجوش تھا کیوں کے آج اسکو گھر جانا تھا ۔ہر مہینے کی پہلی جمعرات کو وہ گھر جایا کرتا تھا ۔آج بھی ہمیشہ کی طرح چھٹی ہوتے ہی وہ گاؤں جانے کے لئیے بسوں کے اڈے کی طرف دوڑا ۔ جاتے ہوئے مگر وہ چاچے ضمیر کی ریڑی سے پھل لینا نہ بھولا تھا  ۔یہ اسکی وہ رقم تھی جو وہ گھر سے جیب خرچ کے لئیے لایا تھا جو اس نے ہمیشہ کی طرح بچا کر رکھی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار پگڈنڈی پر چل کر آتے ہوئے دانش کو دیکھ چکا تھا ۔ دانش جیسے ہی ڈیرے پر پہنچا اس نے ابا کو کھانا پکڑایا اور وقار کو اچھے موڈ میں دیکھ کر کہنے لگا کہ ابا مجھے کچھ پیسے چاہیے۔
وقار ...کتنے بیٹا 
دانش ...8000
وقار کہنے لگا مگر بیٹا کیوں ابھی پچھلے ماہ ہی تو تم مجھ سے 15000لیکر گئے تھے ۔
(اب دانش کیسے بتاتا کہ اس نے وہ پیسے ایک کرکٹ میچ پر لگنے والے جوئے میں اڑا دئیے تھے ) 
ابا ایک تو آپ سوال بہت کرتے ہو یا تو مجھ کو پڑھنے کے لئیے شہر نہیں بھیجناتھا یا اب خرچ اٹھائیں ۔
وقار اسکی اس ڈھٹائی پر دنگ رہ گیا اور جیب سے وہ 10000روپے نکال کر دانش کو دیکر لہجے کو حتی الوسع نرم رکھ دانش کو سمجھانے لگا ۔دیکھو بیٹا یہ پیسے میں نے تمہاری ماں کے علاج کے لئیے ادھارپکڑے تھے ۔ وقار ابھی مزید کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ دانش جلدی سے بول پڑا ۔ اچھا ابا میں چلتا ہوں واپسی کے لئیے پیکنگ بھی کرنی ہے ۔وقار دل مسوستا رہ گیا ۔ دانش کانوں میں ہینڈ فری لگائے دور تک جاتا دکھائی دیتا رہا  ۔وقار دل میں اسکی ہدایت کے لئیے درود شریف کاورد شروع کر چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وقار چارپائی پر بیٹھا ہی تھا کہ ایک وجیہہ صورت نوجوان وہاں آ نکلا اور سب کو بلند آواز سے کہا 
السلام و علیکم 
جب وہ قریب آیا تو سب ہی اسکو پہچان چکے تھے ۔وہ تو حافظ جمیل تھا فضل داد کا سب سے چھوٹا بیٹا ..جو حفظ کر چکنے کے بعد درس نظامی کر رہا تھا  ۔سب کو فردا فردا گلے ملنے کے بعد وہ سب کے حال و احوال جاننے لگا ۔ پھر اس نے خود ہی کچھ فروٹ کاٹا جو وہ اپنے ساتھ لایا تھا اور ساتھ ساتھ سب کے خوش گپیاں کرنے لگا ۔ان تینوں کو اس پر بڑا پیار آ رہا تھا ۔فروٹ ختم ہونے کی دیر تھی جمیل کہنے لگا کہ ابوجی چلو گھر چلیں ۔ فضل داد کہنے لگا تم چلو میں سامنے سبزی کے دو کیاروں کو پانی دیکر آتا ہوں اور کدال اٹھا کر کھیتوں کی طرف چل دیا ۔جمیل گھر جا رہا تھا ۔ عقیل اور وقار حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھے جا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ کاش انہوں نے بھی اپنی اولاد کوعصری تعلیم کیساتھ دینی تعلیم سے روشناس کروایا ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے بچوں میں سے کم از کم ایک کو مذہبی تعلیم ضرور دیں تاکہ وہ آپکو آپکا جائز، صحیح اور حقیقی مقام دے سکے 
جس کے آپ حقدار ہو ۔۔۔۔