لوگ یاد کرتے ہیں مگر کسے؟ 

تحریر: عبدالوھاب اعوان
میٹرک تک گاؤں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب مزید تعلیم کے حصول کے لیے پردیس میں نکلے اور کالج پہنچے تو وہاں جاکر پہلی دفعہ کیرئر کونسلنگ سے متعارف ہوئے- کیرئر کونسلنگ کیا ہوتی ہے؟ اس میں ایک بچے کے میلانات ورجحانات کو جان کر اُسے تعلیمی ڈگری اور پروفیشنل کیرئر سجیسٹ کیا جاتا ہے یعنی مستقبل کے حوالے سے راہنمائی- میلانات ورجحانات کا کیسے پتہ چلتا ہے تو اُس تجربے کی روشنی میں بتائے دیتا ہوں کہ اُس کے لیے بہت سارے سوالات پر مشتمل پرچہ دیا جاتا ہے جن کے جوابات بغیر کسی ڈر اور خوف کے بعینہ اپنے مزاج کے مطابق دینے ہوتے ہیں جیسا کہ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ایک سوال کچھ یُوں تھا کہ اگر دو لوگ بحث کر رہے ہوں اور آپ پاس بیٹھے ہوں تو آپ کیا کریں گے ؟ بحث کا حصّہ بنیں گے یا نہیں وغیرہ وغیرہ
میرا کیرئر کونسلنگ کے دوران جو غالب ڈیپارٹمنٹ نکلا تھا وہ "سوشل" تھا چونکہ سوشل ورک کے ساتھ میں میٹرک کے امتحان دینے کے بعد منسلک ہوگیا تھا اور آج بھی میں سمجھتا ہوں کہ واقعی میرے مزاج کے مطابق مجھے ٹھیک راہنمائی ملی- خیر کم وبیش پانچ سال پردیس میں گزارنے کے بعد گاؤں واپسی ہوگئی اور یہاں آکر ایک تو پڑھانا شروع کر دیا اور دوستوں کے ساتھ مل کر کچھ سماجی سرگرمیاں بھی شروع کردیں تا حال بھی یہی کچھ چل رہا ہے- گزشتہ تین تعلیمی سالوں سے میں ناڑہ میں ایک نجی تعلیمی ادارے کے ساتھ بطور کیمسٹری ٹیچر منسلک ہوں اور آنے جانے کے لیے جو سواری ہے وہ موٹر سائیکل ہے- تقریبًا تیس منٹس کا راستہ ہے ادارے تک پہنچنے کا اور راستے میں دو گاؤں اور کچھ سٹاپ آتے ہیں جہاں پر پاکستان کے معزز شہریوں کے ساتھ ساتھ سٹوڈنٹس بھی کھڑے ہوتے ہیں- اپنے شعبے کے مطابق اور کچھ عرصہ موٹر سائیکل کے بغیر گزارنے کے دوران میں نے ایک چیز نوٹ کی کہ اگر آپ کسی بائک یا گاڑی والے کو رکنے کا اشارہ کریں اور بظاہر آپ کو لگ رہا ہو کہ بائک والا ہے بھی اکیلا اور پھر بھی وہ نہ رکے تو بعد میں کچھ دیر آپ خود کو کوستے ہیں کہ کیوں اشارہ کیا اور عزّت نفس مجروح ہوتی محسوس کرتے ہیں اس لیے زیادہ تر لوگ سٹاپ پر کھڑے رہیں گے یا پیدل چلتے رہیں گے نہ پیچھے دیکھیں گے اور نہ ہی آپ کو رکنے کا اشارہ کریں گے- اگر آپ کے اندر ایک سوشل ورکر چھپا ہوا ہو تو آپ تو ہوتے ہی اس طرح کے موقعوں کی تلاش میں ہیں- یہ ایک سستی نیکی میرے بھی ہاتھ آئی ہوئی ہے کہ اگر کوئی بندہ سٹاپ پر کھڑا ہے تو اُس سے خود رک کر پوچھ لیا جائے کہ آپ نے جانا ہے اور اگر جانا ہو تو ساتھ بٹھا لیا جائے نیکی بھی ہے، آپ کی وجہ سے کسی کو آسانی بھی ملے گی اور کوئی زیادہ دھن بھی نہیں لگ رہا- اس طرح تقریبًا روز کسی نہ کسی سٹوڈنٹ، جوان یا بزرگ کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے- میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ بات نہ کی جائے اُس کی ایک وجہ بتاؤں اگر تو وہ یہ کہ پہلا سوال ہوتا ہے کہ کیا کرتے ہیں تو بطور جواب اگر کہا جائے ٹیچر ہوں تو اگلا سوال کہ سرکاری یا پرائیویٹ(اس سوال سے مجھے چڑ ہے اور وجہ پر پھر کبھی ایک مکمل تحریر لکھوں گا)-  یہ ایک چھوٹی سی آسانی مہیا کرنے کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے الحمدللہ ! اور اللہ اسے جاری وساری رکھے- گزشتہ چند دن پہلے میں سگھری موڑ جوں ہی مڑا تو ایک سگھری کا رہائشی بندہ کھڑا تھا- میں رکا ساتھ بٹھایا اور ہم چل پڑے- تھوڑا آگے جاکر تعارف ہوا تو اُس بندے نے مجھ سے پوچھا کہاں کے ہیں تو میں نے جواب دیا "کوٹ چھجی" تو اُس بندے نے زیر نظر تصویر والی شخصیت اور گاڑی کا ذکر کیا- کہنے لگا میں بھی ایک عرصے سے پردیس میں رہ رہا ہوں- آنا جانا لگا رہتا ہے، بہت بندوں کے ساتھ واسطہ پڑا لیکن کوٹ چھجی کا ایک بندہ مجھے آج تک نہیں بھولا اُس کے پاس پجارو ... بڑی گاڑی لیکن کمال کی اعلٰی ظرفی میں نے زندگی میں اُس شخص میں دیکھی- بغیر کسی جان پہچان کے وہ شخص دو دفعہ اسی راستے پر میرے لیے خود ہی رکا اور گاؤں تک ساتھ لے کر گیا۔
میں نے جب فوت ہونے کا بتایا تو اُس نے بہت ساری دعائیں دی- جب سگھری اتارنے کے بعد میں آگے بڑھا تو ذہن میں سوال آیا کہ لوگ کیوں یاد کرتے ہیں کسی کو؟  تو جواب میں ایک صاحب دانا کا قول ذہن میں آیا کہ "ہم میں سے زندہ وہی رہیں گے جو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے اور لوگوں کے دلوں میں زندہ وہی رہتے ہیں جو آسانیاں تقسیم کرتے ہیں" یہی ہوتی ہے زندگی کی اصلی کمائی-
قاضی محمد حسین مرحوم صاحب کے توسّط سے کوٹ چھجی کے باسیوں کو ایک بہت بڑی آسانی نیو واٹر سپلائی کی صورت میں ملی جو بفضل باری تعالٰی آج بھی جاری ہے اور اُن کا نیکیوں والا اکاؤنٹ بھی چل رہا ہے-
اللہ پاک قاضی صاحب کی اخروی منازل آسان فرمائے اور ہم سب کو بھی آسانیاں تقسیم کرنے کی ہمّت وتوفیق سے نوازے- آمین
نوٹ: آسانیاں تقسیم کرنے کا عمل کسی عہدے یا مرتبے کے ساتھ ہی لازم وملزوم نہیں ہے بلکہ آپ جس مقام پر بھی کھڑے ہیں کسی کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کرسکتے ہیں اور میری اپنی بات کہ ہم سب کچھ نہیں کر سکتے لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں اور چند مل جائیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں