نئے بلدیاتی نظام کی بازگشت ، اٹک کی سیاست میں گہماگہمی 

....تحریر: ....صدیق فخر
نئے بلدیاتی نظام کی بازگشت کے ساتھ ہی عوامی سطح پر بھی امیدواروں کے چنائو پر بحث و مباحثہ زور و شور سے جاری ہے، پنجاب کے باقی اضلاع کی نسبت ضلع اٹک میں بلدیاتی الیکشن کا سیاسی درجہ حرارت گزشتہ بلدیاتی نظام تحلیل ہونے سے پہلے ہی بڑھ چکا ہے۔ سیاسی کارکن ابھی سے اپنے قائدین کا بھرپور ساتھ دینے کیلئے ہر سطح پر دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلدیاتی الیکشن تک کئی دھڑے تقسیم ہو جائیں گے اور گروپ بندیوں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ کارکنوں کی طرف سے جاری مہم میں اپنے قائد کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں آپ سے بہتر کوئی امیدوار نہیں اس لیے تحصیل ، ضلع سطح پر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے الیکشن میں ٹکٹ کے آپ ہی اصل حقدار ہیں اور پارٹی کیلئے آپ سے زیادہ مخلص اور قربانیاں دینے والا کوئی نہیں۔ ہر طرف سے اٹھنے والے شور کی وجہ سے کئی امیدواروں نے ابھی سے اپنے آپ کو تحصیل ناظم اور چیئر مین سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر امیدوار پارٹی کی بجائے اپنااپنا علیحد ہ گروپ بنانے اور اسے مضبوط کرنے کے چکر میں لگا ہوا ہے۔
ضلع اٹک میں تحریک انصاف واحد سیاسی پارٹی ہے جو پاکستان کی طرح ضلع اٹک میں بھی پہلے دن سے ہی گروپ بندی کا شکار رہی جس کا کئی مواقع پر تحریک انصاف کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ مخلص لوگوں کو نظر انداز کرنے کے نتائج سامنے آنے کے باوجود مقامی و مرکزی قائدین کو سمجھ نہ آ سکی۔ یہی صورتحال رہی تو آمدہ نئے بلدیاتی الیکشن میں بھی گزشتہ جیسے نتائج ہی آنے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف کو تقسیم کرنے میں اصل کردار مقامی رہنما ادا کر رہے ہیں جن کی آشیر باد کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بے لگام گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں۔ 
دوسری طرف مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک لبیک پاکستان میں اندرونی اختلافات ہونے کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر نظر آ رہی ہیں اور پارٹی مسائل مل بیٹھ کر اندرون خانہ حل کرنے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہیں اور اپنے اپنے ووٹ بنک کو اپوزیشن میں ہونے کے باوجود بڑھا رہی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کیلئے حکومتی پالیسیاں اور تحریک انصاف کی گروپ بندیاں سونے پر سہاگہ کا کام دے رہی ہیں۔ ملک بھر کی طرح اٹک کی عوام بھی اب ’’تبدیلی ‘‘سے منحرف نظر آ رہی  ہے۔ چونکہ ضلع اٹک کا زیادہ تر علاقہ پسماندہ ہے جس کی وجہ سے یہاں کی اکثریت کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جو مشکل سے اپنی گزر اوقات بسر کر رہے ہیں۔ مہنگائی ، بے روز گاری نے عوام کی مایوسی میں مزید اضافہ کر دیا۔ پی ٹی آئی کے ووٹر بھی اب کھلے عام اپنی پارٹی کا دفاع کرنے کی بجائے تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
ضلع اٹک میں حکومتی پارٹی کی اکثریت ہے۔ اٹک سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی ایم این اے میجر(ر) طاہر صادق، ایم پی اے ملک جمشید الطاف، ایم پی اے سید یاور بخاری، ایم پی اے و صوبائی وزیر کرنل (ر) ملک محمد انور حکومتی نمائندے ہیں۔ایک ایم این اے، تین ایم پی ایز کا تعلق حکومتی جماعت تحریک انصاف سے ہے جبکہ وفاق اور صوبائی حکومتوں میں بھی اٹک کو بھرپور نوازا گیا ہے۔وفاق میں مشیر وزیراعظم برائے ماحولیاتی تبدیلی ملک امین اسلم اورمعاون خصوصی وزیر اعظم برائے اوورسیز پاکستانی سید ذوالفقار عباس بخاری المعروف زلفی بخاری وفاقی وزیروں کے برابر عہدوں پر تعینات ہیںجبکہ پنجاب میں کرنل(ر) ملک محمد انور کو ریونیو کی صوبائی وزارت اورسید یاور بخاری کوپنجاب کی پبلک اکائونٹس کمیٹی ٹو کی صدار ت دی گئی۔ ایم این اے میجر(ر) طاہر صادق کو وفاق میں ذمہ داریاں تو نہیں دی گئیں۔ لیکن ان کا بھی حکومت میں اثرو رسوخ بہت زیادہ ہے۔ضلع اٹک سے وفاق اور صوبے میں بھرپور نمائندگی ہونے کے باوجود صد افسوس کہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود ضلع اٹک میں کوئی ترقیاتی کام شروع نہ ہو سکے بلکہ ضلع اٹک میں (ن) لیگ کے جاری کئی منصوبوں کے افتتاح کر کے اپنے منصو بے بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ جبکہ ان منصوبو ں کے افتتاح پر بھی پی ٹی آئی کے آپس میں اختلا فا ت سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں کہ ہر رہنماء اس کو اپنا کریڈٹ لینے کے چکر میں لگاہوا ہے جبکہ حقیقت میں ان منصوبوں کا تعلق گزشتہ دور حکومت سے ہے۔ضلع اٹک میں حکومتی نمائندوں کو چاہیے کہ وہ وفاق اور صوبائی حکومت ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اپنی توجہ گروپ بندیوں کی بجائے عوامی مسائل کے حل کرنے پر دیں تو نہ صرف ان کے ووٹ بنک
 میں اضافہ ہو گا بلکہ شخصیت میں بھی مزید نکھار آئے گا۔ عوام کے مسائل حل کرنے سے نہ صرف آپ پارٹی کو مضبوط کر سکتے ہیں بلکہ عوام کی طاقت کی وجہ سے آپ کو پارٹی میں بھی اپنا فیصلہ منوانے میں آسانیاں ہوں گی۔ اس وقت ضلع اٹک میں 3 اپوزیشن کے رہنما موجود ہیں جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ ایک ممبرقومی اسمبلی ملک سہیل خان کمڑیال جبکہ دوسرے ممبر صوبائی اسمبلی جہانگیز خانزادہ اور ممبر صوبائی اسمبلی سردار افتخار خان ہیں جو اپوزیشن میں ہونے کے باوجود عوام کی غمی و خوشی میں شریک ہو رہے ہیں اور عوامی مسائل کو بھی ہر فورم پر اٹھا رہے ہیں۔ ایم این اے ملک سہیل خان کمڑیال کی طرف سے پنڈی کوہاٹ روڈ اور آئل اینڈ گیس فیلڈ کی قریبی آبادیوں کو گیس فراہمی ، فتح جنگ بائی پاس کا معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھایا گیا جبکہ سردار افتخار کی طرف سے بھی پنجاب اسمبلی میں فتح جنگ بائی پاس و دیگر مسائل بارے سوالات کئے گئے۔ اگر دیکھا جائے تو ضلع اٹک میں حکومتی نمائندو ں کی بجائے اپوزیشن نمائندے فعال اور عوامی مسائل حل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے ان کے کاموں میں بھی رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ حالانکہ کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ممبر منتخب ہونے کے بعد عوام کا ایم این اے بن کر عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے ہر سطح پر کوششیں کی جانی چاہیں اور ایک دوسرے کی کوششوں پر تنقید کی بجائے سراہا جانا چاہیے ۔ عوامی مسائل کے حل کیلئے جہاں پر رکاوٹیں نظر آ رہی ہوں وہاں پر اپنی طرف سے ہر منتخب ممبر کو آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ سب عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور عوام ہی کے مسائل حل ہو رہے ہوتے ہیں ذاتی نہیں۔