لاہور میں ’’فتح جنگ‘‘
سائیں حاضر حضورؒ سے بابا روشن شاہؒ تک
سجاد بلوچ
کچھ دن پہلے کا ذکر ہے،شام کے وقت گھرجاتے ہوئے رستے میں ایک جگہ رنگ برنگی روشنیوں سے سجا میلے کا سماں دیکھا تو دل و دماغ روشن ہو گئے اور اس روشنی میں ایک ایسا دریچہ کھلا جس میں دودہائیاں پہلے کا ایک منظر اسی طرح جگمگا رہا تھا۔ گاڑی روکی تو کانوں میں میڈم نور جہاں کے پنجابی گانے کی رس بھری آواز پڑی اور یوں لگا کہ فتح جنگ آگیا، یہ ’فتح جنگ آ گیا‘ کیا ہے؟
یہ وہ دیہات کا باسی ہی بتا سکتا ہے جو سال بھر شہر میں منعقد ہونے والے میلے کا انتظار کرتا ہے اور جب پہلی بارفتح جنگ (قصبہ)کے پرانے اڈے پر ویگن سے اترتا ہے اوراس کے کانوں میں گانوں کی آواز پڑتی ہے توجی اٹھتا ہے کہ فتح جنگ آگیا۔ اس کے دل کی حالت کیا ہوتی ہے یہ میں نہیں سمجھا سکتا کیونکہ میں سال بعد نہیں بلکہ دو دہائیوں بعد میلہ دیکھ رہا تھا۔
یہ میلہ ہمارے گھر سے کوئی ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر سجا ہوا تھا۔ عنبرین کو کہا کہ کھانا کھا کرواپس یہاں آنا ہے۔ وہ شاعرہ ہے سو مجھ سے پہلے جانے کو تیار تھی ۔یہ لاہور کا پوش علاقہ ہے لیکن ان جدید بستیوں کے بیچ میں کئی گائوں اپنے مضافات گنوا کر اور اپنی سرحدیں ہمیشہ کے لیے طے کر کے اب بھی اپنی جڑوں کے ساتھ شاداب کھڑے ہیں۔ یہ بابا روشن شاہ ؒکے مزار پر منعقد ہونے ولا سالانہ میلہ ہے۔ جوہر ٹائون کے پاس اور واپڈا ٹائون کے فیز 1 اور 2کے بیچ میں آباد یہ گائوں پنڈ کھمبہ کہلاتا ہے۔اس کے مشرق میں پنڈ کمہیار ہے جہاں اب ایک اور ماڈرن ہائوسنگ سوسائیٹی بن چکی ہے۔جس جگہ اس وقت واپڈا ٹائون فیز 1 ہے یہ کبھی جعفر آباد گائوں تھا۔ اس کے علاوہ قرب و جوار میں کالا جھاڑ، جھگیاں اور شادی وال نام کے گائوں واقع ہیں۔ شادی وال چوک تو اب بھی شوکت خانم ہسپتال چوک کے ساتھ موجود ہے۔ اور تھوڑا اندر کی طرف جائیں توپرانا گائوں بھی موجود ہے۔ جھگیاں نام کے پاکستان میں بے شمار گائوں ہیں۔ واہ کینٹ اور ٹیکسلا کے بیچ میں جہاں ہمارا گھر ہے وہ پرانا جھگیاں گائوں ہی تھا جو اب نئی آبادی میں تبدیل ہو گیا۔ ویسے تو ہر گائوں ہر بستی کا آغاز کسی نہ کسی جھگی سے ہی ہوتا ہے لیکن بعد میں نام بدل جاتے ہیں۔
لاہور میں کئی بڑے میلے بھی منعقد ہوتے ہیں اور داتا صاحبؒ، مادھولال حسینؒ اور شاہ جمال ؒ سمیت کئی مزاروں پر عرس اور میلے منعقد ہوتے ہیں، جن کی اپنی الگ شان ہے۔لیکن بابا روشن شاہ کا یہ میلہ یوں منفرد تھاکہ یہ اچانک ہمارے سامنے آگیا بلکہ جیسے ہمارے گھر کے پاس آگیا۔
کھمبہ گائوں کے لوگوں کے مطابق بابا روشن شاہ کا زمانہ کوئی چار سو سال قبل کا ہے اور کہتے ہیں یہاں شیر پہرہ دیا کرتا تھا۔مزاروں پر شیروں کی موجودگی کے قصے کافی معروف ہیں۔بابا روشن شاہ کا یہ میلہ ہر سال ہاڑ کی پچیس سے ستائیس تاریخ تک منعقد ہوتا ہے۔ فتح جنگ کا بھادوں والا میلہ جسے مقامی لہجے میں ’بھدرے نا میلا‘ کہتے ہیں، بھادوں کے مہینے میں منعقد ہوتا تھا۔ عجیب بات ہے کہ یہ میلے اکثر گرمیوں کے موسم ہی میں منعقد ہوتے ہیں۔ بھادوں کایہ میلہ سائیں حاضر حضور کے دربار پر منعقد ہوتا ہے۔ جن دنوں ملک کے حالات ایسے نہیں تھے ان دنوں پاکستان بھر سے تھیٹراور سرکس مہینہ بھر قبل ہی اپنے خیمے گاڑنے شروع کر دیتے تھے۔ لکی ایرانی سرکس اور عالم لوہار کا تھیٹر ان میں سب سے نمایاں تھے۔عالم لوہار کے تھیٹر میں پوری رات تھیٹر دیکھنا ایک یادگار تفریح تھی۔ تھیٹرمیں سسی پنوں ، ہیر رانجھا ، سوہنی مہینوال وغیرہ جیسے معروف قصوں میں سے ہر رات کسی ایک کہانی پر ڈرامہ پیش کیا جاتا تھا۔ بیچ میں گانے بھی ہوتے اور ان پررقص بھی کیا جاتا۔لکی ایرانی سرکس بین الاقوامی سرکس تھا جس میں ہم نے پہلی بار غیر ملکی انسان اور جانور دیکھے۔ ان کے علاوہ کئی گردشی چڑیا گھر بھی ہوتے تھے جوشہر بہ شہر گائوں بہ گائوں گھومتے رہتے تھے اور یوں یہ جانور بھی خانہ بدوش بن جاتے تھے۔ان چڑیا گھروں کے اندر بڑے بڑے دڑبوں اور لوہے کے پنجروں میں مختلف پرندے اور جانور بند ہوتےاور بدبوایسی ہوتی تھی کہ اللہ کی پناہ لیکن ہم ایک جہانِ حیرت میں کھو جاتے تھے۔ اس حیرت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ذہن میں چڑیا گھر کا تصوراتنا ہی محدود تھا جتنا پرائمری سکول کی کتاب ہو سکتی ہے ، ہم نے تو چھٹی جماعت میں آکر پہلی بارموٹے کاغذ پر چھپے ہوئے زیڈ سے زو میں اس کی رنگین تصویر دیکھی تھی۔اس کے علاوہ موت کے کنویں، جھولے، انواع و اقسام کے کھابے اور بیلوں کی دوڑ ، کبڈی اور دیگر مقابلے اس میلے کی شان تھے۔
ایسے میلے معمول سے منعقد ہوتے تھے لیکن پھر خون خرابے کا میلہ سج گیا اورڈیڑھ دہائیوں سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں۔میلے ٹھیلے بند ہو گئے۔غریب اور متوسط طبقے سے یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی چھین لی گئیں۔ جب آپ ہنسنے گانے کے رستے بند کردیں، جب سانس لینا مشکل ہو جائے اور سال بعد کوئی میلہ دیکھنے کا خواب بھی غریب سے چھین لیا جائے تو پھر رویوں میں تشدد کیوں نہ آئے۔
مجھے یاد ہے کہ ان دنوں ہم ان منچلوں پر ہنستے تھے جو آٹھ دن مسلسل میلہ دیکھنے جاتے تھے۔ کاندھے پر دھوتی رکھے، تیل میں سر لتھیڑے ، سرمہ سکہ کئے ان میلوں ٹھیلوں میں کان پر ہاتھ رکھے جوگ میں ماہیے ٹپے گانے والوں کے پاس بیٹھ کر سر دھننے والے غریبوں کی خوشی کو کوئی ہم جیسا کیسے سمجھ سکتا ہے ، اسے وہی سمجھ سکتا اور محسوس کر سکتا ہے جسے زندگی میں سال بعد یہ خوشی نصیب ہوتی ہے۔
بابا روشن شان کا یہ میلہ اتنا بڑا تو نہ تھا لیکن ماحول ویسا ہی تھا۔ فتح جنگ اور یہاں کے میلے میں نمایاں فرق جلیبی کا تھا، وہاں قطار میں بے شمار جلیبی کی دکانیں ہوتیں تھی جبکہ یہاں لاہور میں فالودے کی یا ایک خاص پکوان قتلمہ کی دکانیں تھیں۔قتلمہ بہت لذیذ تھا یہ مقامی پزا ہے اور اس سے لذیذ کیونکہ اس کی ’بریڈ‘ یعنی روٹی پر لگائے گئے مسالے دیسی ہوتے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر جلیبی کی ایک دکان مل ہی گئی۔ ہم نے جھٹ سے خریدی اور گھر آکر چائے کے ساتھ پرانی یاد تازہ کی۔ فتح جنگ کے میلے میں کھابوں میں مرکزی حیثیت جلیبی کو ہی حاصل تھی۔ زیادہ سے زیادہ جلیبی کھانے کے مقابلے ہوتے تھے۔ ابا سرکاری افسر تھے اور فتح جنگ میں ہی تعینات تھے، قیام گائوں میں تھا سومیلے کے دنوں میں شام کو جلیبی تو روز ہی لے آتے تھے، جب تک ہم چھوٹے تھے تو ابا کے ساتھ ہی میلے میں جاتے اور جب بڑے ہوئے تو خود جانے لگے اور زیادہ لطف اندوز ہونے لگے۔
یہاں خواجہ سرا بھی گھوم رہے تھے لیکن انھیں کہیں رقص کناں نہ دیکھا۔یہ غالبا لاہور کی سڑکوں اور چوراہوں پر شام ڈھلے سے رات گئے تک بھیک مانگنے والے خواجہ سرا تھے۔ کہاں وہ فتح جنگ کا میلہ کہ خواجہ سرائوں کی ٹولیاں گھوم رہی ہوتی تھیں جو موت کے کنووں میں کار یا موٹرسائیکل سوار کے شو سے پہلے رقص کرتے اور اس سے قبل باہر ’پھٹے‘ یعنی اسٹیج پر ’مفت‘ رقص کرتے اور لوگوں کو موت کے کنویں کا ٹکٹ لے کرموت کے کنویں میں داخلے کی ترغیب دیتے ، لیکن کئی مفت خورے من چلے گھنٹوں وہیں کھڑے انھیں مفت میں دیکھنے کو ترجیح دیتے اور اگلا شو ختم ہونے کا انتظار کرتے کہ وہ کب دوبارہ جلوہ دکھانے باہر تشریف لاتے ہیں۔ آخری دن عورتوں کا میلہ ہوتا تھا اس دن صرف عورتیں ہی میلے میں جا سکتی تھیں، ہر طرف سے رستوں پر ناکے ہوتے جہاں سے مرد وزن کو پوری تسلی سے چیک کر کے ہی دخلے کی اجازت دی جاتی تھی۔لیکن کچھ ہیروز نما من چلے اپنا جگاڑ لگا کر کسی یار رشتہ دار کی دکان پر سیلز مین بن کر بیٹھنا بھی اعزاز سمجھتے تھے کیونکہ یہی ایک صورت اس دن میلے میں داخلے کی ممکن ہوتی تھی۔ لیکن لاہور کے میلے میں مرد و زن اکٹھے میلا دیکھ رہے تھے۔
جھولوں وغیرہ کے عقب میں بازار اوربازار کے بیچ میں مزار کو رستہ جا رہا تھا، اس رستے میں کئی ڈالیاں مزار کی طرف جاتی دیکھیں، ان ڈالیوں میں ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں جو ایک بڑی سی چادر پکڑے ہوتے ہیں جو مزار پرچڑھائی جاتی ہے۔ اس میں شامل لوگ ڈھول کی تھاپ پر دھمال ڈال رہے تھے۔ کھلونوں کی دکانیں بہت تھیں جنھیں دیکھ کر وہ کھلونا گاڑیاں بہت یاد آئیں جو ہم فتح جنگ کے میلے سے خریدتے تھے۔ میں پلاسٹک کے کھلونوں کو دیکھے جا رہا تھا، یہ کھلونے ساتھ سڑک پر بھاگتی لوہے کی بڑی بڑی گاڑیوں سے زیادہ حسین اوراصلی دکھائی دیے۔ خدا جانے سچی مسرتوں کے وہ لمحے زمانے کی گرد میں کہاں گم ہو گئے۔ ان پر سے دھول ہٹانے کی کوشش میں آنکھیں دھندلا جاتی ہیں۔