عمران اور مولانا کے دھرنے۔ ایک موازنہ
(تحریر، سلیم صافی)
سال 2014 میں عمران خان اسلام آباد فتح کرنے کے لیے آرہے تھے تو دھاندلی کا الزام لگایا تھا اور آج مولانا صاحب بھی مبینہ انتخابی دھاندلی ہی کو بنیاد بنا کر دھرنا دے رہے ہیں۔
عمران بھی وقت کے وزیراعظم کا استعفیٰ مانگ رہے تھے اور مولانا بھی وقت کے وزیراعظم کا استعفیٰ طلب کر رہے ہیں۔ عمران بھی کنٹینر پر چڑھ گئے تھے اور مولانا بھی کنٹینر پر چڑھ گئے ہیں۔
عمران خان حملہ آور ہوئے تھے تو پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی، خودکش دھماکے روز کا معمول تھے، شمالی وزیرستان میں آپریشن کا آغاز ہوا تھا، لاکھوں پختون بےگھر ہوئے تھے، انڈیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے اور چینی صدر سی پیک کی بنیاد رکھنے کے لئے پاکستان آرہے تھے۔
آج مولانا حملہ آور ہیں تو کشمیر کا مسئلہ، المیہ بن گیا ہے اور افغانستان کا قضیہ فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عمران خان اور مولانا ایک جیسا کام کررہے ہیں لیکن کچھ حوالوں سے عمران خان کے دھرنے اور مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
مثلاً عمران خان کا دھرنا آبپارہ چوک تک قانونی تھا لیکن وہاں سے آگے بڑھنے کے بعد غیرقانونی ہو گیا تھا لیکن مولانا کا دھرنا جب تک پشاور موڑ پر ہے اور وعدے کے مطابق شرکا آگے نہیں بڑھتے تب تک جمہوری اور قانونی ہے۔
عمران کے دھرنے میں پولیس افسران کو مارا پیٹا گیا اور سرکاری افسران کو دھمکیاں دی جاتی رہیں لیکن مولانا کے دھرنے میں ابھی تک کسی سپاہی کے ساتھ بھی بدتمیزی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ عمران کے دھرنے میں سپریم کورٹ کی عمارت پر گندے کپڑے لٹکائے اور پارلیمنٹ پر حملے کئے گئے لیکن مولانا کے دھرنے میں ابھی تک ان اداروں کے احترام اور وقار پر زور دیا جارہا ہے۔
عمران کے دھرنوں میں جیو کے دفاتر پر روز پتھراؤ ہوتا رہا اور پی ٹی وی تک پر حملہ کیا گیا لیکن مولانا کے دھرنے میں ابھی تک ایسا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔ عمران کے دھرنے میں ثناء مرزا اور فرحت جاوید جیسی خواتین صحافیوں کے ساتھ بدتمیزیوں کے فوٹیج سامنے آرہے تھے لیکن مولانا کے دھرنے میں ایسے مناظر سامنے آرہے ہیں کہ خاتون رپورٹر بارش میں رپورٹنگ کررہی ہیں تو مولانا کے ایک رضا کار ان کے سر پر چادر ڈالتے جبکہ دوسرے خود بارش میں بھیگتے ہوئے ان کو بارش سے بچانے کے لئے چھتری تھامے نظر آرہے ہیں۔
عمران کے دھرنے کے نتیجے میں میڈیا تقسیم اور بےوقعت ہوا جبکہ مولانا کے دھرنے کے نتیجے میں کچھ وقت کے لئے سہی لیکن بہر حال میڈیا پر عائد سنسرشپ میں تھوڑی سی کمی آئی۔ پہلے الزام لگتا تھا کہ عمران کا دھرنا اسکرپٹ کا نتیجہ ہے لیکن مولانا کے دھرنے پر ایسا کوئی الزام نہیں۔ اسی طرح عمران کے دھرنے میں امپائر کی طرف اشارے کا تاثر دیا جاتا تھا لیکن مولانا کے دھرنے میں صورتحال اس کے بر عکس ہے۔
عمران کے دھرنے میں مڈل کلاس لوگ نظر آتے تھے لیکن مولانا کے دھرنے میں لوئر اور انتہائی غریب کلاس کے لوگوں کا غلبہ ہے۔ عمران کے دھرنے میں زیادہ شرکاء وسطی پنجاب اور پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ہوتے تھے لیکن مولانا کے دھرنے میں پختونخوا، بلوچستان، سرائیکی بیلٹ اور اندرون سندھ کے شرکاء کی اکثریت ہے جبکہ وسطی پنجاب کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔
عمران خان کے دھرنے کے کنٹینر پر کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کے شہری بھی نظر آتے تھے لیکن مولانا کے کنٹینر پر ابھی تک کوئی دہری شہریت والا نظرنہیں آیا۔ عمران کے کنٹینر پر نغمے سنانا روز کا معمول تھا اور شرکا کی تفریح کے لئے سنگرز بھی وقتاً فوقتاً بلائے جاتے تھے لیکن مولانا کے کنٹینر پر ایسا کچھ نہیں ہورہا بلکہ نعتیں یا پھر نظمیں سنانا معمول ہے۔ عمران کے دھرنے میں عید کے سوا کوئی نماز باجماعت نہیں پڑھی گئی لیکن مولانا کے دھرنے میں ہر نماز باجماعت پڑھی جارہی ہے۔
عمران کے دھرنے کے اسٹیج پر اُن کی جماعت کے سوا کسی اور جماعت کا رہنما نظر نہیں آیا۔ چوہدری صاحبان بھی اُن کے کنٹینر پر جانے کے بجائے طاہر القادری کے کنٹینر پر جاتے تھے۔ تب پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم جیسی اپوزیشن جماعتوں میں سے کسی نے بھی اُن کے دھرنے کی حمایت نہیں کی لیکن مولانا کے دھرنے کے اسٹیج پر تمام اپوزیشن جماعتوں کے رہنما نظر آتے ہیں۔
عمران خان کے دھرنے نے اِس وقت کی اپوزیشن جماعتوں مثلاً پی پی اور اے این پی کو بھی حکومت کے پیچھے لاکھڑا کیا لیکن مولانا کے دھرنے میں ساری اپوزیشن حکومت کے خاتمے اور نئے الیکشن کے لئے یک زبان ہو گئی۔ عمران کے دھرنے کے نتیجے میں اصل فائدہ جنرل پرویز مشرف کو ہوا تھا لیکن مولانا کے دھرنے نے سب سے زیادہ پرویز مشرف کے جانشینوں کو آزمائش سے دوچار کردیا ہے۔
عمران خان کے دھرنے کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان جمہوری قوتوں کو ہوا تھا لیکن مولانا کے دھرنے کے نتیجے میں جمہوری قوتوں میں تھوڑی سی جان آگئی ہے۔ عمران خان کے دھرنے کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ(ن) کو ہوا تھا اور اس کی حکومت پرویز مشرف کے جانشینوں کے مقابلے میں کمزور ہو گئی تھی لیکن مولانا کے دھرنے کے نتیجے میں سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ(ن) کو پہنچا ہے۔
یہ فرق ہے عمران اور مولانا کے دھرنے میں۔ فرق نہیں آیا تو ہم طالب علموں کے مؤقف میں نہیں آیا۔ تب بھی عمران خان کے احتجاج کے حق کو تسلیم کر رہے تھے لیکن دھونس کے ذریعے حکومت کے خاتمے کے حق میں نہیں تھے اور آج بھی مولانا کے حقِ احتجاج کو تسلیم کررہے ہیں لیکن دھمکی اور دھونس کے ذریعے حکومت کو ختم کرانے کے حق میں نہیں۔ تب عمران خان سے التجا کررہے تھے کہ وہ احتجاج کریں لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش نہ کریں تاہم عمران خان نے کب ہماری سننا تھی اور آج بھی مولانا سے یہ گزارش کررہے ہیں کہ وہ احتجاج کا اپنا حق استعمال کریں لیکن قانون ہاتھ میں نہ لیں۔ مولانا ابھی تک تو ان التجاؤں کو سن رہے ہیں، دیکھتے ہیں وہ آگے کیا کرتےہیں۔
بشکریہ، جنگ جیو میڈیا گروپ