ؒحضرت خواجہ احمد میروی

کوہ سلیمان کے دامن کی ایک بستی میں کھوکھر خاندان کے ایک مردِ صالح حضرت میاں برخودارؒکے گھر ۱۲۵۰ھ بمطابق ۱۸۳۲ء میںیہ آفتاب ولایت طلوح ہوا۔آپ کی شیر خوری کی عمر میں آپؒ کی والدہ وفات پاگئی۔آپ بلوعت کی عمر کو نہیں پہنچے کہ والد ماجد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا تو آپ کے ماموں حضرت علی خانؒ نے آپ کی پرورش کی۔
حضر ت تونسوی ؒ کی خد مت میں حاضری
حضرت خواجہ احمد میروی ؒ کے ماموں حضرت علی خان،غوث زمان حضرت شاہ محمد سلیمان تونسویؒ سے عقیدت وارادت رکھتے تھے۔
ان سے حضرت تونسویؒ کے اوصاف واخلاق سن کر آپ کا دل بے چین ہوگیا۔چنانچہ ماموں کے ساتھ حضرت کی خدمت با برکت میں حاضر ہو گئے۔
چند ایام تک اپنے ماموں کے ساتھ حضرت اعلیٰ تو نسوی کی مجالس سے فیضیاب ہونے کے بعد آپ گھر واپس آگئے لیکن اپنا دل تونسہ شریف  میں ہی چھوڑ آئے حضرت کی نورانی صورت اور حسن خلق نے آپ کا دل موہ لیا۔ہر وقت آپ کا تصور بے چین رکھتا۔حصرت کے فراق میں چھپ چھپ کر آنسو بہاتے۔آخر ایک دن محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر نزرانے کا دینہ ساتھ لیا اور عازم تونسہ ہوئے۔حضرت کی خدمت میں نزر اور بیعت کی درخواست کی ۔آپ نے دنبے کی پیٹھ پر کئی مرتبہ ہاتھ پھیرا اور تحسینی کلمات ارشاد فرمائے اور پھر انہیں بیعت سے مشرف فرما کر ایک چشمہ فیض جاری کر نے کا سامان کردیا۔حضرت  میروی کی عمر۱۵سال تھی اس کے بعد چار مرتبہ بارگاہ اقدس میں حا ضر ہو نے کا شر ف حا صل ہو ا 
اپنے شیخ و مربی کی خبر وصال بھی آپ کو تونسہ کی راستے میں ملی۔دنیا اندھیرا ہو گئی ۔ افناںو خیزاں تونسہ پہنچے۔آخری دیدار کا شرف حاصل ہوا  اور پھر گھر جا کر اپنا سب مال اسباب اور مویشی رشتہ دارو ں کے حوالے کر کے مستقل طور پر تو نسہ شریف میں حضرت خواجہ اللہ بخش تو نسویؒ کی خدمت میں آ رہے اور حصول علم میں مشغول ہو گئے۔ نو برس تک تمام علوم مروجہ کی تحصیل سے فارغ ہوئے،اس دوران حصرت خواجہ اللہ بخشؒسے اور حضرت اعلیٰ تو نسویؒ کے دیگر خلفاء سے روحانی فیض بھی حا صل کر تے ہے۔ 
پھر کچھ مدت کیلئے ملتان میں اور بعد ازاں کلورکوٹ میں تعلیم حاصل کر تے رہئے۔
میرا شریف میں قیام

اٹک سے جنوب مغربی سمت نشیب و فراز پر مشتمل گھا ٹیوں اور پہاڑی ٹیلوں اور وادیوں کا ایک وسیع سلسلہ سر زمین پنڈی گھیب کے نام سے موسوم ہے۔اس علاقے کا مرکزی شہر پنڈی گھیب ہے پنڈی گھیب سے 16میل مغربی جانب ریتلے اور پتھریلے ٹیلوں کومیرا شریف بننے کا شرف حاصل ہوا۔قدیم زمانے سے اس علاقے کے پہاڑی دروں اور برساتی نالوں(سواںاورسیل)کی گزرگاہیںرہزنوںاور چوروں کی پناہ گاہیں بنی ہوئی تھیںکو ئی اکاہ دوکا مسافر ادھرآنکلتا تو مال نقصان کے ساتھمتاع حیات بھی ہاتھ سے دھوبیھٹتاتھا۔
اس علاقے میں سب سے پہلے میاں محمدنامی شخص نے ڈھوک بنائی انکے پیرو مرشد حضر ت مو لانامحمدعلی مکھڈویؒاس ڈہوک سے گزرے تو میاںمحمدنے عرض کیا کہ چوروںاوردرندوں کا ہر دم خطرہ رہیتا ہے دعا فرمائیں کہ دائیمی امن نصیب ہو۔ آپ نے فرمایا فکر نہ کروایک وقت آئے گا کہ یہاں کا نظارہ قابل دید ہوگا۔مجھے ان ٹیلوںاور سنگ ریزوںپرنور کی بارش برستی ہے اور ذکر اللہ کی صدائیں گونجتی سنائی دیتی ہیں
میاں محمد صاحبؒ نے بعدازاں یہی درخواست پیر پٹھان غوث زمان خواجہ شاہ محمدسلیمان تونسوی کی خدمت میں پیش کی اور عرض کی کہ حضور میرا زمین پر ڈھوک بنا آیا ہوں اس کے لئے دعا فر مائیں توحضور تونسوی نے فرمایا وہ میَرانہیںمِیرا ہے وہ ٹکڑا قیامت تک شاداب رہے گابلکہ پریشان حالوں کیلئے امن کی جگہ اور روحانیت گا مرکز ہو گا۔
                                گفتہ    او     گفتہ       اللہ    بَود
                                 گرچہ  از   حلقوم     عبداللہ    بَود
حضرت خواجہ احمد میرویؒ تعلیمو سیاحت سے فارغ ہوئے تو کسی جگہ قیام کیلئے استخارہ فرمایا۔انہیں شمال مشرق میں میرا کا ٹیلہ دکھایا گیا چناچہ آپ تونسہ شریف  سے اس ٹیلے کی تلاش میں نکل پڑے آخر یہاں پہنچ کر میاں محمد کی ڈھوک سے مغربی سمت اس ٹیلے پر ڈیرہ ڈدالا جلد ہی وہ پتھریلا ٹیلا رشدوہدایت کا عظیم مرکز میرا شریف بن گیا جہاں آجکل بصیرت کو انوار کی بارش برستی دکھائی دیتی ہے۔
حضرت خواجہؒ کے اخلاق واوصاف عالیہ
حضرت داتا علی ہجویریؒ کشف المحجوب میں فر ناتے ہیں۔
لیس التصوف رسوماََولا علوماََولکنہ اخلاق
یعنی تصوف چند رسمیں ادا کر نے کا نام نہیں اور نہ ہی بعص علوم حاصل کرنے کا نام ہے بلکہ تصوف تو سراسر اخلاق حسنہ کا نام ہے
اللہ کا ولی تجلیات الہیٰ کا مظہر ہوتا ہے اورہر تجلی اس کے کسی عمل کی خالق ہوتی ہے چناچہ جس طرح تجلیات الہیٰ کا شمار مکمن نہیں اسی طرح ولی اللہ کے اخلاق و اوصاف اور خیا لات و گفتار کی رنگا رنگی کا اْحاطہ بھی بہت مشکل ہے ترجمان فطرت علامہاقبالؒ اس حقیقیت کو یو بیان کرے ہیں
ہر   لحظ   ہے   مومن  کی  نئی  شان   نئی   آن
گفتار  میں  ،  کردار  میں  ،  اللہ  کی     برہان
حضرت خواجہ احمد میرویؒقدس سرہ العزیز کے حا لات وسیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر سطر اور ہر صفحہ سے آپ کے اخلاق کریمانہ کا ایک نیا انداز نظر آتا ہے
ایک دفعہ مسجد سے آپ کا جوتا چوری ہو گیا کسی نے بتایا کی ایک شخص تیزی سے پنڈی گھیب کی طرف جارہا ہے،لوگ اس کے پیچھے دوڑے حضور نے فرمایاچور پکڑا جائے تو میرے پاس لے آنا۔چور پکڑکر لایا گیا تو آپ نے تبسم فرماتے ہوئے فرمایاکہ تم جوتے کسی گھاٹی میں چھپا دیتے تو بچ جاتے۔اب تو چور ثابت ہو گیا ہے  ہم تجھے ایسی سزا دیں گے جو اس سے پہلے کسی چور کو نہیں دی گئی ہوگی،چور نے کہاں کہ جیسے آپ کی مرضی ،تو آپ نے حا فظ بدر دین صاحب کو اسے جو تے  خریدنے کیلئے رقم دینے کے لئے کہا
فقرواستغنا
حضر ت میرویؒ کی طبیت میں اللہ تعالیٰ نے بچپن ہی سے فقرواستغاء کا وصف ودیعت کر دیا تھا آپ کے استغنا کاپہلا منظر اس وقت سامنے آیا جب اللہ تعالیٰ کی محبت میںگھر بار چھوڑ کر عازم تونسہ ہوئے تو اپنا مال ومتاع رشتہ دارں میں تقسیم کر دیا
تو نسہ شریف میں آپ کی طالب علمی کا دور بھی فقراختیاری اور توکل واستغنا میں گرزرا نہ مال جمع کرنے کی کبھی خواہش کیاور نہی کبھی کسی کے سامنے دستے سوال دراز کیا۔
نواب بہاولپور کے وزیر احمد خان نے طلباء کے وظائف مقرر کیئے تو استاد گرامی نے آپ کا نام بھی فہرست میں شامل کر دیا۔آپ کو معلوم 
ہوا تو عرض کی وطن اور گھربار اللہ تعالیٰ کی خاطر ترک کیاتنگی اور آسانی قبول ہے،میں اس دروازے کو چھوڑ کر کسی اور کی تواقع نہیں رکھناچا ہتا
چنانچہ دوسرے طلباء کے وظائف مکرر ہوئے جبکہ آپ پرانے کپڑوں اور روکھی سوکھی پر قانع رہے۔
لیکن ایسے موقع پر قدرت بھی اپنی دستگیری دکھائے بغیر نہیں رہیتی اور
من یتوکل علی اللہ فھوحسبہ
کے مصداق ربوبیت الہیٰ اس کی ضروریاتکی کفالت کا بہترانتظام کر دیتی ہے۔ حضرت خواجہ میروی کے توکل سے لوگو کے دلوں میں آپ کی عزت بڑگئی اور فتو حات کا سلسلہ شروع ہو گیا حقیقت یہ ہے کہ محبت الہیٰ سے سرشار لوگو ں کے فکروعمل میں جب توحید اپنا رنگ جمانا شروع کردیتی ہے تو وہ موحد کامل بن جاتے ہیںتو اپنے رازق کو پہچان لینے کے بعد ان کی نگاہ کسی دارا و سکندر کی طرف نہیں اٹھتی بلکہ شاہان وقت ان بوریہ  نشینون کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونے اور ان کی کفش برداری کو اپنی عزت خیال کرتے ہیں۔
حضرت پیر مہر علی شاہؒ کا احمد میرویؒ سے محبت وتعلق
پیر مہر علی شاہؒ کو خواجہ احمد میرویؒ سے ایک خاص محبت تھی۔پیر صاحب کے پرزور اثرار پر خواجہ احمد میروی دو مرتبہ گولڑہ شریف بھی تشریف لے گئے راوالپنڈی راجہ بازار کے اندر جو مرکزی جامع مسجد ہے اس کا افتتاح بھی حضرت خواجہ احمد میرویؒاور پیر مہر علی شاہؒ نے کیااور بعد ازا گولڑہ شریف تشریف لے گئے۔
پیر مہرعلی شاہؒ مرزا قادیانی سے جب مناظرے کیلئے لاہورجانے لگے تو اس سے قبل آپؒ نے میرا شریف حاضری دی عشاء کے ٹائم پیر صاحب یہاں سے رخت ہوئے اور خصوصی دعا کا بھی حکم فر مایا۔خواجہ احمد میرویؒ نے آپؒ کو  الوداع فرمایا تو ان کی فتح کے لئے نماز سے قبل  بلند آواز میں آذانیں پڑھیں ۔اس کے پیش نظر آج بھی میرا شریف کی مسجد میں نماز عشاء سے قبل آذانیںپڑھی جاتی ہیں۔
حضرت خواجہ کی علالت اور وصال:
سنت الہیٰ ہے کہ جب وہ اپنے برگزیدہ بندوںسے اپنی مرضی کے مطابق کام لے لیتا ہے تو انہیں پھر اپنے حریم قدوس میں بلا لیتا ہے، چنانچہ آپؒ بھی جب خدمت دیناور اصلاح خلق کا کام خوش اسلوبی سے نمٹا چکے تو محبوب حقیقی کی طرف سے بلاواآگیا۔۲۱ذوالحج کو ہاتھ پر پھنسی کی تکلیف ہوئی جس سے بخار آنے لگا شدید درد کے باوجودچہرہ اقدس کی بشاشت برقرار تھی۔آخر ۵ محرم بروز بدھ ۱۳۳۰ھ کو یہ آفتاب  ولایت دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون
آپ کا عرس مبارک۵،۴،۳،محرم الحرم کو محبت و عقیدت سے میراشریف میں منایا جاتا ہے۔