ممتاز پاکستانی شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد
ممتاز پاکستانی شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد پیر چار اگست کو اپنی 70 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں اپنا شاعر ہونا سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔
امجد اسلام امجد چار اگست 1944ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے جبکہ ابتدائی تعلیمی مراحل لاہور میں طے کیے۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں اپنے بچپن کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا تھا کہ اُن کا خاندان دستکاروں کا ایک خاندان تھا، جس میں ادب پڑھنا تو دور کی بات ہے، سرے سے پڑھنے لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا:’’سوائے اس کے کہ یہ جسے آپ پڑھنے کی عادت کہتے ہیں، یہ مجھے اپنے والد صاحب سے ملی، جو ابنِ صفی کے جاسوسی ناول یا پھر تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجمے اور شفیق الرحمان کی کتابیں بڑے شوق سے پڑھتے تھے تو یہ کتابیں مَیں نے بچپن ہی میں پڑھ لی تھیں، جس سے پڑھنے کا شوق تو مجھے ہو گیا تھا لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے گھر سے کوئی مزید مدد نہ مل پائی۔‘‘
امجد اسلام امجد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا تھا کہ اُن کے ادبی ذوق کو نکھارنے میں بنیادی کردار اُن کے اساتذہ نے انجام دیا:’’شاید میرے اساتذہ نے محسوس کیا کہ میرے لکھنے اور بولنے میں کوئی ایسی اضافی چیز ہے، جو مجھے باقی طالب علموں سے شاید ممتاز کرتی ہے، چنانچہ مجھے نویں جماعت میں سکول کے رسالے کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔‘‘
امجد اسلام نے گریجوایشن گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور سے کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں کالج کے ابتدائی برسوں میں آیا تو اُس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ مَیں لکھ سکتا ہوں، شاعری یا نثر کی زبان میں‘۔
اُس دور میں وہ بنیادی طور پر کرکٹر بننا چاہتے تھے:’’مَیں اچھی کرکٹ کھیلتا تھا اور مَیں نے یونیورسٹی کی سطح تک کرکٹ کھیلی۔ ادب کا رجحان ایک ذیلی رَو تھی اور کرکٹ کے بعد یہ میری دوسری چوائس تھی۔‘‘
امجد اسلام امجد کے مطابق جب کرکٹ کے کھیل میں اُنہیں یکے بعد دیگرے کچھ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور دوسری طرف کالج میں گریجوایشن میں اردو میں زیادہ نمبر حاصل کرنے پر اسکالر شپ مل گئی تو کرکٹ کی بجائے اُن کی مکمل توجہ شعر و ادب کی طرف ہو گئی:’’ہمارے ایک محلّے دار تھے، آقا بیدار بخت، جو بچپن سے میری بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ تم لکھا کرو، پڑھا کرو، مَیں اپنی ابتدائی شاعری بھی اُنہی کو دکھاتا تھا۔ پھر چلتے چلتے جب مَیں یونیورسٹی میں آیا تو مَیں نے سنجیدگی سے شعر و ادب پر توجہ دینا شروع کر دی اور پرانے کلاسیکی شاعروں کو خاص طور پر پڑھا، جن پر بعد میں مَیں نے ’نئے پرانے‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔‘‘
امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ کلاسیکی شعراء کو پڑھنے کے بعد ہی آپ موجودہ دور کی شاعری کو بھی بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اُنہوں نے میر تقی میر کے ایک شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جو چیز بعد ازاں کارل مارکس نے طویل تحقیق کے بعد پیش کی، وہ اُن کی پیدائش سے بھی پہلے میر اپنے اس شعر میں بیان کر گئے تھے کہ
امیر زادوں سے دلّی کے مَت مِلا کر میر
کہ ہم غریب ہوئے ہیں، اُنہی کی دولت سے
پنجاب یونیورسٹی سے اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد انہوں نے ایک استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کا آغاز لاہور ہی کے ایم اے او کالج سے کیا۔ 1975ء سے لے کر 1979ء تک وہ پاکستان ٹیلی وژن سے بطور ڈائریکٹر وابستہ رہے۔ وہ ’اردو سائنس بورڈ‘ اور ’چلڈرن لائبریری کمپلیکس‘ سمیت متعدد سرکاری اداروں میں سرکردہ عہدوں پر ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں۔
ریڈیو پاکستان سے بطور ڈرامہ نگار چند سال وابستہ رہنے کے بعد امجد اسلام امجد نے پی ٹی وی (پاکستان ٹیلی وژن) کے لیے کئی سیریلز لکھیں، جن میں ’وارث‘ کے ساتھ ساتھ ’دہلیز‘، ’سمندر‘، ’رات‘، ’وقت‘ اور ’اپنے لوگ‘ بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُنہیں صحیح معنوں میں شہرت 1979ء میں دکھائی جانے والی سیریل’وارث‘ سے ملی کیونکہ ’جہاں شاعری کی رسائی محض ایک محدود طبقے تک ہی ہوا کرتی ہے، وہاں اُس زمانے میں بھی، جب ملک میں پی ٹی وی کی صورت میں محض ایک چینل ہوا کرتا تھا، ناظرین کی تعداد سات آٹھ کروڑ ہوا کرتی تھی‘۔
اُنہوں نے شعر و ادب کی کئی جہات میں کام کیا ہے اور کئی تراجم کرنے کے ساتھ ساتھ تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے ہیں۔ وہ ’چشمِ تماشا‘ کے نام سے باقاعدگی کے ساتھ ایک کالم بھی لکھتے ہیں۔ نظم و نثر میں اُن کی چالیس سے زیادہ کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی ادبی خدمات کے بدلے میں ’صدارتی تمغہء حسن کارکردگی‘ اور ’ستارہء امتیاز‘ سمیت متعدد اعزازات بھی حاصل کر چکے ہیں۔
وہ اپنے انٹرویوز میں اپنی یہ خوبصورت مختصر نظم ہمیشہ بہت شوق سے سناتے ہیں کہ
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا